یہ وہ امریکہ تو نہیں!!!

0
170
جاوید رانا

قارئین کرام! جس روز ہمارا یہ کالم آپ تک پہنچے گا، اگست کی امریکہ میں 13 تاریخ ہوگی جبکہ پاکستان میں 14 اگست کا آغاز ہو چکا ہوگا، پاکستان کے 73 ویں یوم آزادی کی مسرتوں سے ہر پاکستانی سرشار ہوگا اور حب الوطنی کے مظاہر (نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں جہاں جہاں پاکستانی موجود ہیں) تقاریب کی صورت میں سامنے آرہے ہونگے۔ کرونا کی بدترین و مہلک صورتحال کے باعث اگرچہ آزادی کا جشن اُس تزک و احتشام سے نہیں منایا جا سکے گا جو ہمارا طُرہ¿ امتیاز رہا ہے لیکن وطن سے عشق میں پاکستان کے عشاق اپنے جذبے کا اظہار ضرور کرینگے۔ ہم اپنی اور اپنے ادارے کی جانب سے پاکستان کے 73ویں یوم آزادی پر نہ صرف اپنے قارئین بلکہ دنیا بھر میں آباد تمام پاکستانیوں کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہیں بلکہ وطن کی سالمیت و خوشحالی، ترقی اور تا ابد قائم و دائم رہنے کی دعا کرتے ہیں نیز ہر پاکستانی کی صحت، خوشیوں، کامیابی اور ہر ناگہانی سے تحفظ کیلئے دعا گو ہیں۔ آمین۔ پاکستان کا جشن آزادی ہر سال پاکستان و دیگر ممالک و شہروں یہاں شکاگو اور ریاست کے دیگر شہروں میں نہایت جوش و جذبے کےساتھ منایا جاتا رہا ہے لیکن اس برس کرونا کی شدید صورتحال کے باعث جشن آزادی کی تقریباً تمام تقاریب منسوخ ہو چکی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ تو یقیناً جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کرونا کا پھیلاﺅ ہے لیکن اس کےساتھ کچھ ایسے عوامل ہیں جو امریکہ جیسے جمہوری اور ہر قومیت، مذہب، رنگ و نسل و زبان کے افراد کو اپنی آغوش محبت میں جگہ دینے والے ملک کی روشن تاریخ کے منافی ہو رہے ہیں۔ مذہبی منافرت، عصبیت اور رنگ و نسل کا بھیانک عفریت سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ آئے دن کسی نہ کسی قسم کا کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جاتا ہے جو نہ صرف متعلقہ شہر کو بلکہ ملک بھر کو انتشار و افتراق کی نذر کر دیتا ہے بلکہ لاءاینڈ آرڈر کی بد ترین صورتحال کا موجب بھی ہوتا ہے۔ فسادات، ہنگامہ آرائی اور قتل و غارتگری کی کوئی نہ کوئی واردات آئے دن سامنے آتی ہے یہ صورتحال یہاں شکاگو یا ریاست الی نائے میں ہی نہیں بلکہ امریکہ بھر میں نظر آتی ہے۔ راقم الحروف 1979ءمیں امریکہ آیا اور اس ملک کی روشن و مثبت روایات ہر فرد کی عزت و حقوق کے تحفظ اور مساویانہ حیثیت و مقام کے حقائق کے باعث اس ملک کا شہری ہونے پر فخر کرتا رہا ہوں لیکن گزشتہ 4 برسوں سے جو حالات و واقعات ظہور پذیر ہوئے ہیں ان کی وجہ سے مجھے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ وہ امریکہ تو نہیں جو انسانی حقوق و آزادی کا پاسدار اور انسانی اقدار کی سربلندی کی عالمی شہرت کا حامل ہے۔ آپ سوچ رہے ہونگے کہ آخر وہ کیا وجہ بنی جس کے باعث آزادی پاکستان اور پاکستان کے موجودہ حالات پر اظہار خیال کے بجائے مجھے امریکہ کی موجودہ صورتحال پر قلم اٹھانا پڑا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ میرا ارادہ تحریک آزادی کی جدوجہد، حصول پاکستان اور حالیہ سیاسی منظر نامے کے ناطے سے ہی کچھ لکھنے کا تھا لیکن اتوار و پیر کی درمیان شکاگو ڈاﺅن ٹاﺅن میں ہونےوالے ایک سنگین و کریہہ واقعہ نے مجھے اس تحریر پر مجبور کر دیا۔ یوں تو شکاگو خصوصاً جنوبی شکاگو کا علاقہ ایک مخصوص کمیونٹی کی وقتاً فوقتاً وارداتوں کے باعث ایک عرصے سے شناخت رکھتاہے۔ چوری، لوٹ مار اور باہمی تنازعات کے باعث قتل و غارت گری معمول بن چکے ہیں لیکن مذکورہ واقعہ اس حوالے سے زیادہ تشویش کا باعث ہے کہ اس کے پس منظر میں وہ نسلی منافرت نظر آتی ہے جس کا آغاز چند ماہ قبل سفید فام پولیس افسر کے ہاتھوں جارج فلائیڈ جونیئر کے منیاپولس میں سفاک قتل کے باعث ہوا۔ نسلی و رنگ کے تعصب کے تناظر میں ہونےوالی اس واردات کے شدید اثرات نے نہ صرف متعلقہ ریاست کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بلکہ Black Lives Matter کے عنوان سے یہ آگ سارے امریکہ میں پھیل گئی۔ اتوار و پیر کی شب ہونےوالے اس واقعہ کو بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی کہا جا رہا ہے مشی گن ایونیو سے شروع ہونےوالے اس فساد میں ہزاروں کی تعداد میں مشتعل و اسلحہ بردار افراد نے متعدد بڑے اور مشہور اسٹورز کو لُوٹا، نقدی اور دیگر اشیاءلے گئے پراپرٹیز کو نقصان پہنچایا بلکہ آتشیں اسلحے کا بیدریغ استعمال کرتے ہوئے پولیس کو بھی نشانہ بنانے کا ارتکاب کیا۔ شکاگو پولیس کے سپرنٹنڈنٹ کے مطابق تشدد و لوٹ مار کا یہ سلسلہ جمعہ 6 بجے شام سے شروع ہو کر اتوار و پیر کی شب تک جاری رہا۔ اس دوران شر پسندوں نے 31 بار شوٹنگ کا ارتکاب کیا، پولیس سے براہ راست فائرنگ کا تبادلہ کیا جس کے باعث تین افراد کی ہلاکتیں ہوئیں جبکہ 32 افراد زخمی ہوئے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تمام قومیتوں، مذاہب، رنگ و نسل و زبان کی تخصیص سے ماوراءہر ایک کیلئے محبوب یہ ملک اس حالت کو کیوں پہنچا؟ امریکہ کی شناخت کو معدوم کرنے کے محرکات کیا ہیں اور ان کے پس پردہ کون سی قوتیں یا مقاصد ہیں؟ مبصرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق یوں تو 9/11کے بعد ہی مذہبی منافرت کا ایک طوفان برپا ہوا تھا لیکن اس وقت کی انتظامیہ اور صدور کی روادارانہ پالیسیوں و اقدامات کے باعث حالات میں اتنی بگاڑ نہیں ہوئی تھی۔ مبصرین کے مطابق امریکی اشرافیہ اپنی توسیع پسندانہ و حکمرانہ پالیسیوں کے مو¿جب بیرونی ممالک پر تو ارتکاب کرتی رہی مگر امریکہ کا مثبت تصور برقرار رکھا۔ موجودہ صدر ٹرمپ کا انتخاب بذات خود نسلی منافرت کا نتیجہ تھا جس میں 20 لاکھ ووٹوں کو حاصل کر کے اکثریت کے باوجود ہیلری ہار گئیں اور ٹرمپ پاپولر ووٹ کے ذریعے جیت کر صدر بن گئے۔ آغاز سے ہی تعصب و منافرت کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اسلام کو انسانیت مخالف مذہب قرار دینا ہسپانوی کمیونٹی کو امریکہ دشمن قرار دینا، تارکین وطن کیلئے تحقیز آمیز جملے بازیاں نت نئی پابندیوں و مشکلات کھڑی کرنے کے بیانات و پالیسیاں جس طرح ٹرمپ نے واضح کیں، امریکہ کی تاریخ میں کسی صدر کے دور میں نہیں ہوئیں۔ اسی پر بس نہیں خود کو صدر سے زیادہ Celeberity سمجھنے والے ٹرمپ نے ایسے اقدامات کئے جو اس کے اپنے سیاسی رفقاءاور انتظامی حلیفوں کیلئے قابل قبول نہیں ہوئے اور بعض نے تو اس حوالے سے اپنی تحریروں و بیانات سے اختلافی اظہار بھی کر دیا۔ کرونا کے حوالے سے جو کچھ ہوا اور ماہرین کے مشوروں کو نظر انداز کر کے فیصلوں میں تاخیر اور چین پر الزام تراشی کے طومار سے ٹرمپ نے امریکہ کو دنیا کا سب سے زیادہ متاثرہ اور ہلاکتوں کا ملک بنا دیا، ریاستی انتظامیہ کے مشوروں و تجاویز اور میڈیا کے اظہار پر آگ بگولا ہونے والے ٹرمپ نے نہ صرف معاشرتی بلکہ معاشی منظر نامے کو شدید متاثر کیا ہے۔
ٹرمپ کی سفید فام نسل پرستی کا اثر امریکہ کیلئے سُم قاتل ثابت ہوا۔ جارج فلائیڈ کا قتل اسی منفی اثر و تعصب کا نتیجہ تھا جو امریکہ میں نفرت کی آگ کو انتہاءتک لے گیا اور ڈاﺅن ٹاﺅن کا حالیہ واقعہ اسی آگ کا تسلسل ہے جو سارے ملک میں بھڑک رہی ہے۔ منافرت اور بربریت کے اس عفریت کے باعث آج امریکہ میں مقیم ہر فرد خوف و ہراسگی کی کیفیت سے دوچار ہے اور اس سوچ میں ہے کہ بقول فیض!
یہ داغ داغ اُجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
مجھ سمیت ہر امریکی یہی سوچ رہا ہے کہ جس خوبصورت اور انسانیت نواز امریکہ میں آکر ہم بسے تھے، یہ وہ امریکہ تو نہیں جہاں سب کی جان و مال اور آبرو محفوظ تھی اور خوشیاں بسیرا کرتی تھیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here