پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ، ارباب حل و عقد تجارتی و کاروباری طبقات، ابلاغ اور دانش و حکمت کے ادارے و افراد حتیٰ کہ مذہب کے دعویدار کبھی بھی کسی قومی ایشو پر متفق و یک آواز نہیں ہو پاتے۔ معاملات سیاسی ہوں، معاشرتی، معاشی ہوں یا امن و امان اور قومی مفادات سے متعلق ہوں، ان میں نزاعی یا اختلافی صورتحال ضرور پیدا ہوتی ہے۔ بعض اوقات تو یہ صورتحال متعینہ وجوہات اور بنیاد کے بغیر بھی پیدا کی جاتی ہیں اور ایک انتشاری کیفیت برپا کر کے سیدھے سادھے امور کو بھی اُلجھاوے کا باعث بنا دیا جاتا ہے۔ پاکستان کی سات دہائیوں میں ملک جن حالات سے دوچار رہا ہے وہ ایک کُھلی کتاب کی مانند ہے، طرز حکومت صدارتی رہا ہو، پارلیمانی یا ملکی ترقی و امن و امان کیلئے فوجی اقتدار کا رہا ہو، متذکرہ بالا صورت حال سے ہمیشہ دوچار رہا ہے۔ ہم اپنے گزشتہ کئی کالموں میں اس کی بنیادی وجوہات پر اظہار خیال کرتے آئے ہیں، زمیندارانہ، سرداری اور جاگیردارانہ بالادستی کی بنیادی وجوہ اس معاشرتی بگاڑ کی بنیاد ہیں ہی، وقت کےساتھ اس میں ذاتی مفادات، ہوس حکمرانی و دولت اور مکمل تصرف اور مقابل کی تضحیک و ذلت آمیزی کی سوچ نے حالات کو بد سے بد تر بنا دیا ہے۔ نتیجتاً منفی رحجان اور تکذیب و نفاق کا یہ زہر عوام الناس میں سرایت کر چکا ہے۔ پیسے کی دوڑ، مادی ہوس، عدم تحمل و برداشت اور دوسرے کو نیچا دکھانے کا رواج قوم کا مزاج بن چکا ہے۔ حد یہ ہے کہ اب قومی و انتہائی حساس معاملات بھی قومی وحدت و یکجہتی کے مظہر نہیں ہوتے۔
ماضی کے معاملات سے صرف نظر کرتے ہوئے اگر ہم موجودہ حالات پر ہی نظر ڈالیں تو یہ حقیقت واضح ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحانہ اقدامات و خونریزی اور غاصبانہ اقدام کےخلاف ہماری سیاسی اشرافیہ بشمول حکومت پارلیمنٹ سے لے کر یو این او جنرل اسمبلی اجلاس اور مظلوم کشمیریوں کی نجات کی جدوجہد میں کبھی بھی متفق و متحد نہیں ہوئی۔ عالمی برادری کے سامنے کشمیر، ناموس رسالت و مسلم اُمہ کے مثبت پہلو پر وزیراعظم کے بلند آہنگ کے واضح اظہار و مو¿قف کو سپورٹ کر کے قومی اتحاد کا مظاہرہ کرنے کی بجائے مخالف اشرافیہ نے اس پر دُھول ڈالنے کی کوشش کی اور پاکستان کے مخالفین کے منفی مو¿قف کو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر سپورٹ کیا۔ ہمارے سوشل میڈیا کا کردار تو اس حوالے سے بد ترین رہا۔ خود کو سیکولر اور انسانیت کے دعویدار گرداننے والے نام نہاد دعویداروں نے تو پاکستان دشمنی کا ناپاک ترین کردار ادا کیا اور ہماری عسکری محب وطن قیادت پر کیچڑ اُچھالنے سے بھی باز نہ آئے۔ میڈیا کا کردار بھی اس حوالے سے کچھ اچھا نا تھا کہ خطاب کے بعد آگے کیا کا سوال، اس ایشو کو گہنانے کیلئے تسلسل سے کیا جاتا رہا ہے۔
کردار تو مولانا فضل الرحمن عرف ڈیزل کا بھی پاکستان اور پاکستانیت کے حوالے سے ایک سوال ہے ہم اپنے پچھلے کالم میں ان کے پس منظر اور حالیہ انتخابات میں ان کی شکست کے حوالے سے عرض کر چکے ہیں۔ اب موصوف نے اپنے اسلام آباد لاک آﺅٹ اور آزادی مارچ کیلئے 27 اکتوبر کا اعلان کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ 27 اکتوبر، بھارت کے غاصبانہ قبضے کی تاریخ ہے جب کشمیر کو ہڑپ کرنے کی ناپاک حرکت ہوئی ار دنیا بھر میں کشمیری اور پاکستانی اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔ مولانا ڈیزل نے اس تاریخ کو آزادی¿ مارچ کیلئے کیوں منتخب کیا؟ کیا یہ JUI کے قیام پاکستان کی مخالفت کا تسلسل اور در پردہ بھارت نوازی کے زمرے میں نہیں آتا۔ اس مارچ کیلئے مولانا ڈیزل کی جماعت کا دس نکات پر مبنی ایک ہدایت نامہ بھی سوشل میڈیا پر سامنے آیا ہے جس میں جماعت کے کارکنوں اور مدرسوں کے طلباءکو مارچ میں شرکت پر پابند کرتے ہوئے اپنے ہمراہ کپڑے، اشیائے خورد و نوش، فونز کے چارجرز، بیٹریوں اور تصادم کے مقابلے کیلئے ڈنڈے اور جھنڈے لانے کےساتھ ساتھ کسی بھی وقت کبھی بھی متعلقہ امیروں کے حکم پر عمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے گویا بین السطور میں مکمل مقابلے کی تیاری کی گئی ہے۔ ادھر چینلز پر جب اس ہدایت نامے پر سوال اُٹھے تو مولانا ڈیزل کے سیکرٹری جنرل برادر خورد اور دیگر رہنماﺅں نے اسے فراڈ قرار دیتے ہوئے اس کی اونر شپ سے ہی انکار کر دیا۔ مولاناڈیزل اور ان کے حواری آزادی مارچ کےساتھ دھرنا دینے یا نہ دینے کے مو¿قف پر دو رُخی اور منافقت کا شکار نظر آتے ہیں یا اپنے ارادوں و عمل کی پردہ پوشی کرنا چاہ رہے ہیں۔
دو رُخی کا شکار تو ہمارے حکومتی عہدیدار اور ان کے پارٹی رہنما بھی نظر آرہے ہیں کہ اس ایشو پر کپتان نے تو اسلام آباد آنے والوں کو ایلٹی میٹم دے دیا ہے۔ فیصل واوڈا، علی زیدی اور عندلیب وغیرہ دھمکیاں دے رہے ہیں جبکہ شاہ محمود قریشی، شبلی فراز اور غیرہم مولانا کیلئے احتجاجی حق دیتے ہوئے ان سے تاریخ کی تبدیلی کی اپیل کر رہے ہیں۔ یہ متضاد بیانیئے اس حقیقت کی بھی نشاندہی کر رہے ہیں کہ حکومتی صفوں میں ذہنی ہم آہنگی اور ہم خیالی کا فقدان ہے۔ شاید اسی باعث یہ سوچ زبان زدِ عام ہے کہ کابینہ کے ارکان وزیراعظم کے احکامات پرکان نہیں دھرتے اور نہ ان پر عملدرآمد ہوتا ہے۔ یہ حقیقت گزشتہ ہفتہ آرمی چیف سے قومی سرمایہ کاروں اور تاجروں کی ملاقات میں بھی سامنے آئی۔
سچی بات تو یہ ہے کہ اس وقت وطن عزیز سیاسی، معاشی، معاشرتی حوالوں سے کچھ زیادہ ہی بے یقینی اور انتشار کی کیفیت سے دوچار ہے۔ بقول شاعر!
اوج پر ہے کمال بے ہنری
با کمالوں میں گِھر گیا ہوں میں
یہ بے ہنری سیاسی مخالفین میں یقیناً اپنی اغراض کےلئے بلاول و مریم اور ان کے حواریوں میں تو سمجھ میں آتی ہے لیکن پاکستان کو ریاست مدینہ جیسی مثالی ریاست بنانے کے پُرعزم کپتان اور ان کی ٹیم کو اس پر غور کرنا ہوگا۔ بھارت اپنے ازلی پاکستان دشمن روئیے، مقبوضہ کشمیر میں اپنے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے اور عالمی فورم پر اپنی تذلیل کے تناظر میں FATF سمیت، عالمی برادری میں اپنی شیطانی سرگرمیوں سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی سازشوں میں مصروف ہے۔ اس وقت تو ہمیں پاکستان کی سلامتی، ترقی، خوشحالی کیلئے متحد اور یکجا ہو جانا چاہیے اور دنیا کو ایک قوم کی تصویر دکھانی چاہیے۔
٭٭٭