عوام کا سونامی، خدا خیر کرے!!!

0
45
جاوید رانا

ہمارا گزشتہ کالم 24 نومبر کی فائنل کال کے حوالے سے تخت یا تختہ!، آخری جنگ کے عنوان سے سربراہ مقتدرہ سے اس اپیل پر ختم ہوا تھا کہ حالات کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے افہام و تفہیم اور مذاکرات کا راستہ اپنایا جائے کہ یہی ملک و عوام کی خوشحالی و حقیقی فتح کی ضمانت ہے لیکن طاقت و اختیار کے نشے میں چُور مقتدرہ اور اس کی پروردہ حکومت کو ایسا کرنے میں شاید اپنی سیاسی فناء کے خوف نے محاذ آرائی کا راستہ ہی باور کرایا۔ اپنے مقصد کی تکمیل کیلئے غیر عوامی حکومت اور اس کے سرپرستوں نے احتجاجی تحریک کو روکنے کیلئے جو کچھ کیا اور جس طرح ملک کے نظام کو ساکت کر دیا، اس کی تفصیل تو قارئین قومی و بین الاقوامی ابلاغ اور سوشل میڈیا کے توسط سے جان چکے ہیں، البتہ اس کا اثر یہ ہوا کہ عمران خان مزید طاقتور اور عوام کا محبوب ترین لیڈر بن کر سامنے آیا ہے۔ مثل مشہور ہے کہ سمندر کو جس قدر قوت سے روکنے کی کوشش کی جائے وہ اتنی ہی قوت سے اپنا راستہ بناتا ہے، چوبیس نومبر کو عوام کے اتھاہ سمندر کے راستے میں جوبھی رکاوٹیں اور قدغنیں لگائی گئیں وہ خس و خاشاک کی طرح بہہ گئیں برباد ہو گئیں۔ پولیس اور دیگر اداروں کی کاوشٰیں مکمل طور سے ناکام نظر آتی تھیں، البتہ بدحواسیوں کے بہت سے مناظر سامنے آئے، لاہور میں عمرے سے واپس آنے والی خواتین کو پی ٹی آئی کے مظاہرے میں شرکت کے شبے میں گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تاہم عمرہ ویزہ اور بورڈنگ کارڈ دکھانے پر ان کی گلو خلاصی ہوئی۔ وزیر داخلہ کے چینل کے پروڈیوسر حالات کا جائزہ لینے کیلئے باہر نکلے ان کے ہمراہ گاڑی میں بیٹھی ان کی اہلیہ نے شیشہ اُتار کر عمران خان زندہ باد کا نعرہ لگایا تو پولیس گاڑیوں کی ان کے پیچھے دوڑ لگ گئی۔ چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ پی ٹی آئی کے بہت سے مقامی رہنمائوں نے پولیس کی درخواست پر گرفتاریاں بھی دیں۔ دوسری جانب اتوار سے دو روز قبل سے پی ٹی آئی کے لیڈر ان کے گھروں پر ریڈ کر کے خوفزدہ کرنے اور توڑ پھوڑ کی حرکات کی گئیں۔ یہ ساری حرکات اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ ناکام حکومت، اس کے سہولت کار اور انتظامی مشینری کس قدر خوف اور پریشانی کا شکار تھے۔
جس وقت ہم یہ سطور لکھ رہے ہیں حالات کشیدگی کی بد ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ ایک طرف لاکھوں کے قافلے کے پی، ہزارہ، میانوالی اور دیگر جگہوں سے اسلام آباد پہنچ چکے ہیں، پولیس کی جانب سے بدترین شیلنگ کا سلسلہ جاری ہے، عوام کی جانب سے مدافعت اور استقلال اس ظلم کے باوجود مستحکم ترین ہے اور عوام ہر صورت میں منزل مقصود پر پہنچ کر اپنے قائد کی رہائی کیلئے پیشقدمی کر رہے ہیں۔ عمران خان کے حق میں پاکستان میں ہی نہیں امریکہ کے شہروں اور ریاستوں، برطانیہ، آسٹریلیا سمیت دنیا کے چھ براعظموں میں بہت بڑے مظاہرے جاری ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کتنے ہی مظالم کر لے، گرفتاریاں کر لے، آتش و آہن اور رکاوٹوں کا سہارا لے، حق و سچ کو جھٹلانا نا ممکن ہے اور عوام کے جذبے اور طاقت کے آگے ٹھہرناکسی کے بس میں نہیں ہو سکتا۔ ہمارا یہ کالم تھینکس گیونگ کے سبب بدھ کے روز قارئین تک پہنچ جائیگا، اب تک کی صورتحال یہ ہے کہ تمام تر کوششوں اور حکومتی سختیوں کے باوجود لاکھوں کا مجمع اسلام آباد پہنچ چکا ہے۔ 26 ویں چوکی پر بدترین شیلنگ اور پولیس، رینجرز اور ایف سی کی موجودگی کے باوجود نہ صرف کے پی سے آنے والے قافلے بلکہ پنجاب، پنڈی اور اسلام آباد کے مظاہرین کی بڑی تعداد بھی منزل کی جانب گامزن ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے قائدین بیرسٹر گوہر شبلی فراز وغیرہ کی کپتان سے ملاقاتوں کا تسلسل اس امر کا عندیہ دے رہا ہے کہ عوام کا سمندر حکمرانوں کو کسی ریلیف یا معاہدے پر مجبور کر رہاہے۔ وزیر داخلہ کی ڈی چوک کی جگہ سنگجانی میں دھرنے کی تجویز رات گئے اڈیالہ کے دروازے کھلنا اور بشریٰ بی بی کا مجمع میں خان کی طرح مکہ لہرانا اس بات کی نشاندہی ہے کہ حکمران حکومت بیک فٹ پر آگئی ہے۔ اب تک کے حالات کی شنید یہی ہے کہ بات مذاکرات تک پہنچ گئی ہے۔ تاہم مظاہرین کا مؤقف یہ ہے کہ جب تک قائد کی رہائی نہ ہوگی اور قائد کا اعلان سامنے نہیں آئیگا، احتجاج اور دھرنا جاری رہے گا۔ ہمارے کالم کی تکمیل ہونے تک ایک جانب سرینگر روڈ پر رینجرز کی شہادتوں اور زخمی ہونے کی خبریں ہیں۔ تو دوسری طرف مظاہرین کی ڈی چوک پہنچنے پر انہیں پیچھے دھکیلنے کیلئے براہ راست فائرنگ سے6افراد کو شہید اور درجنوں کو زخمی کردیا گیا ہے، پی ٹی آئی کے مرکزی کنٹینر کو آگ لگا دی گئی ہے۔ بشری بی بی اور علی امین گنڈا پور کو عوام نے حفاظت کیلئے اپنے احصار میں لیا ہوا ہے۔ ظلم کی انتہاء ہے کہ لوگوں کے سروں پر گولیاں ماری جارہی ہیں، قیامت برپا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ حالات مزید تباہی کی طرف جارہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کا حقارہ محسن نقوی اس ضد پر اڑاہوا ہے کہ خواہ کتنا بھی نقصان ہوجائے، تباہی برپا ہو، بدنامی ہوظلم بربریت جاری رکھی جائے گی۔
ہماری رب کریم سے یہی دعا ہے کہ معاملات خوش اسلوبی و پاکستان میں امن و عوام کی خواہشات کے مطابق طے پائیں۔ موجودہ حالات سے وطن عزیز میں ہی نہیں دنیا بھر میں پاکستان اور اسٹیبلشمنٹ کا منفی تاثر کسی بھی طرح ہمارے حق میں نہیں، ابلاغ کے عالمی اداروں کے تبصرے شرمندگی کا سبب بنے ہوئے ہیںَ اس وقت سارا ملک میدان جنگ بن چکا ہے۔ مذاکرات میں ناکامی کی صورت میں اور اسٹیبلشمنٹ و حکومت کی ہٹ دھرمی وطن عزیز کو مصر، بنگلہ دیش جیسی صورتحال سے دوچار نہ کر دے۔ اللہ کریم خیر کرے اور زور آوروں کی بدمستی کی بدولت عوام کے سونامی سے وطن عزیز کو محفوظ رکھے۔ آمین۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here