جمعیت علمائے اسلام ہند کہ جو ہندوستان میں سو سال پرانی دیوبندی مسلک کے مسلمانوں کی مذہبی جماعت ہے اور اس کے 12 ملین ایکٹو ممبرز ہیں ان کے جنرل سیکریٹری جناب مولانا مدنی صاحب کشمیر بارے فرماتے ہیں کہ “کشمیر انڈیا کا اٹوٹ انگ ہے اور پاکستان اس میں اپنی مداخلت بند کرے بھارت کی موجودہ گورنمنٹ نے کشمیر بارے جو بھی قدم اٹھایا ہے وہ دیش کی بھلائی کے لیے ہے ” آج کل پاکستان میں کشمیر اور ناموس رسالت پر دھرنے کا چرچا ہے اگر مولانا مدنی صاحب اپنے فالورز کے ساتھ نئی دہلی میں کسی ایک جگہ پر ایک دن کے لیے بھی اکٹھے ہو جائیں تو کشمیر بارے کشمیریوں کی تمام مانگیں اسی دن ہی پوری کروا سکتے ہیں کشمیر کی آبادی سے چار ملین زیادہ فالورز ہےں مولانا صاحب کی۔ اب آجائیں جمعیت علمائے اسلام پاکستان ( فضل الرحمٰن) کی طرف اکتیس سال پرانی مذہبی جماعت جو کہ ایکٹو پالیٹکس میں بھی حصہ لیتی ہے اور جس کے ہر حال میں سربراہ مولانا فضل الرحمٰن جو کہ1980 سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے چلے آ رہے ہیں اور ایک صوبہ کے پی کے میں گورنمنٹ بھی بنا چکے ہیں اور زرداری نواز گورنمنٹ میں دس سال تک کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کہ جس کا درجہ ایک وفاقی وزیر کے برابر ہوتا ہے رہ چکے ہیں مجال ہے کہ کسی میجر فورم پر کوئی ایک بیان کشمیر کی فیور میں دیا ہو مراعات بجٹ بنگلہ گاڑی سب استعمال میں رہا طالبان سے قربت کی وجہ سے کوئی ان کے ساتھ پھڈا کرنے کی جرات نہیں کرتا کہ کہیں خودکش حملہ نہ ہو جائے حالانکہ ان پر کئی ایک جان لیوا حملے ہوچکے ہیں جس میں موصوف محفوظ رہے کرپشن کے ڈھکے چھپے الزامات جن میں چالیس لاکھ کی لسی اور کئی سو ایکڑ زمیں اپنوں کے نام ٹرانسفر شامل ہیں لیکن پکڑ دھکڑ سے بچے رہے ابھی موجودہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین علی امین گنڈہ پور جو ان کے سیاسی حریف بھی ہیں نے اثاثہ جات میں آمدنی سے تجاوز کا ایک کیس ان پر بنانے کی داغ بیل ڈال دی ہے شاید 27 اکتوبر کے دھرنے میں سیفٹی سوئچ کے طور پر استعمال ہو لیکن ایک بات طے ہے موصوف انتہائی شاطر ذہن کے مالک ہیں ٹوٹل کاسٹنگ ووٹ کے 2 فیصد ووٹ بینک کا مالک 15 لاکھ بندے دھرنے میں لانے کا ارادہ رکھتے ہیں بندے اکٹھے کرنے میں ان کا ایک حد تک دعوع درست ہے کہ مدرسے کے طلبا نفری میں اضافہ کا باعث بن سکتے ہیں ادھر نواز لیگ اور بلاول پارٹی بھی ایک حد تک ہی ساتھ ہے کہ کہیں سچ مچ ہی ماحول گرم نہ ہو جائے وہ اپنی گیم کے چکر میں لیکن خان صاحب اپنے اصولی مو¿قف پر ڈٹے ہیں کہ نہ ڈیل ہوگی نہ ڈھیل مال دو بندے لو اور ابھی تاجر برادری کے بڑوں کی ایک بڑے سے ملاقات کا تاثر بھی یہی ہے گورنمنٹ اور فوج ایک پیج پر ہیں ہماری سوچ ہے دھرنا ہوگا اور ضرور ہوگا ہونا بھی چاہیئے سیاسی طور پر ایک صحت مند ایکٹیوٹی ہے خان صاحب تو پہلے ہی کہتے ہیں کہ “گھبرانا نہیں ہے” لبیک والوں نے دو دن تک پورا ملک یرغمال بنا رکھا تھا خان صاحب چائنا ٹور پر تھے جب اتھارٹیز نے بھی لبیک کہا تو سب جھاگ کی طرح بیٹھ گئے اور جب مولوی خادم حسین ریفیشر کورس کے بعد واپس آئے تو سکون میں تھے اور ابھی تک ہیں کیا لبیک والے ریفریشر کورس کا ایک اور بیج داخلے کا منتظر ہے؟ وقت بتائے گا۔۔
٭٭٭