حیدر علی
میری عقل دانی تا ہنوز اِس بات کو سر تسلیم خم کرنے سے انکار کرتی ہے کہ امریکا میں مقیم پاکستانی لامحدود یعنی اِنفنٹی مسائل سے دوچار ہیں باوجودیہ کہ میری رائے زنی کے چند پاکستانی جو گاہے بگاہے مقامی انتخابات میں کھڑے ہوتے ہیں، اور ہار جاتے ہیں، اُن سبھوں کا دعویٰ یہی ہوتا ہے کہ وہ منتخب ہوتے ہی پاکستانیوں کی تقدیر کا کایا پلٹ دینگے۔ یعنی کہ ابھی جو پاکستانی کام نہ کر رہے ہیں ، اُنہیں کام کرنے کی کوئی ضرورت نہ ہوگی، اِسٹیمولس چیک بدستور اُنکے میل بکس میں آتی رہے گی بلکہ اُسکی رقم میں اضافہ ہوجائیگا۔ فُڈ سٹیمپ جس سے وہ اپنے گھر کی گروسری خریدتے ہیں ، اُس سے وہ گروسری خریدنے کے بجائے ایپل آئی فون خریدنے کے بھی مجاز ہونگے، اور راستہ گھاٹ ، ریسٹورنٹ سب وے میں وہ اُسے گھما گھماکر کولوگوں کو دکھائینگے ، اور لوگ اُن کے آئی فون کورشک بھری نگاہوں سے دیکھ کر آہیں بھرتے ہوے یہ کہینگے کہ” اے کاش کہ مجھے بھی فُڈ سٹیمپ ملا ہوتا۔ “ مجھے اچھی طرح علم ہے کہ بعض حضرات نے فُڈ سٹیمپ سے ٹویوٹا کار خرید نے کی بھی کوششیں کیں تھیں، لیکن کار ڈیلر نے اُنہیں یہ کہا کہ اگر آپ کا امیدوار سٹیٹ سینیٹر کا انتخاب جیت کر یہ تجویز منظور کروالی کہ لوگ فُڈ سٹیمپ سے نئی گاڑیاں بھی خریدنے کے اہل ہونگے تو پھر وہ اُنہیں بلاشبہ گاڑی حوالے کردیگا۔ لیکن بد قسمتی سے اُنکا امیدوار پھر ہار گیا۔ انتخاب میں کھڑے ہوے پاکستانی امیدوار کا یہ بھی دعوی تھا کہ لوگوں کو اپنے گھر کے کرایہ دینے کی بھی کوئی ضرورت نہ ہوگی، اور وہ مفت اپنے گھر میں رہینگے ، اور اُس وقت تک رہینگے جب تک کہ کورونا وائرس اِس کرہ ارض سے ختم نہ ہوجائیگا۔ امریکی صدر کو یوگنڈا اور کانگو میں جاکر اِس بات کی تصدیق کرنا پڑے گی کہ وہاں بھی کورونا وائرس نام کی کوئی بلا نہیں۔ امیدوار کا یہ بھی دعوی تھا کہ پاکستانی لڑکے اور لڑکیوں کو اسکول و کالج جانے کی بھی کوئی ضرورت نہیں، اُنہوں نے کافی تعلیم حاصل کر لیں ہیں، اُسکے ذریعہ وہ باآسانی بس کے ڈرائیور یا ٹریفک پولیس بن سکتے ہیں۔ اِس سے زیادہ تعلیم حاصل کرنا وقت کا کا ضیاع ہے۔ یہ تو تھا امیدوار کا موقف ، جو وہ پاکستانیوں کا دِل جیتنے کیلئے اظہار عقیدت کے طور پر کر دیا اور اِس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں کیونکہ اُس کے ہم عصردوسرے امیدوار بھی یہی کرتے ہیں۔ بلکہ بعض امیدوار تو مین ہٹن میں رہتے ہیں اور کوئینز کی نمائندگی کرتے ہیں، بعض نے اپنے حلقے کو اپنی سہولت کیلئے کوئینز اور برانکس دونوں میں بانٹ دیا ہے۔ جب بھی برانکس کے باسی اُسے تنگ کرتے ہیں تو کانگریس مین کا یہی حیلہ بہانہ ہوتا ہے کہ وہ تو برانکس سے نہیں بلکہ کوئینز سے منتخب ہوا ہے۔ بہرکیف میں نے اِسی طرح کے ایک امیدوار سے جو اپنی دھواں دار تقریر میں پاکستانیوں سے وعدہ در وعدہ کر رہے تھے اُن کی دِل کی بات کریدنے کی کوشش کی ۔ جب وہ اپنی تقریر ختم کرنے کے بعد اپنی نشست پر بیٹھے تو میں اُن کے بغل میں براجمان ہوگیا، اور انتہائی انکساری کے ساتھ اُن سے مخاطب ہوا کہ حضور یہ جو آپ اپنی تقریر میں پاکستانیوں کے مسائل ، پاکستانیوں کے مسائل پر بھاشن دیتے ہیں تو کیا واقعی ایسی کوئی بات در پیش ہے یا یہ محض خام خیالی ہے۔ اُنہوں نے بھی انتہائی خلوص کے ساتھ جواب دیا کہ اگر پاکستانیوں کے ساتھ اتنے مسائل ہوتے تو جس طرح وہ پاکستان چھوڑ کر امریکا آگئے ہیں، اُسی طرح وہ امریکا چھوڑ کر سوئیڈن یا نیوزی لینڈ جاکر وہاں نہاری اور بہاری کباب فروخت کرنا شروع کردیتے۔ بلکہ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے یہ گلہ کیا ہے کہ اُن کے ملک میں ذائقہ دار نہاری دستیاب نہیں، کیونکہ اِسکے بنانے والے تاہنوز اُن کے ملک کا رخ نہیں کیا ہے۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو اسپیشل ویزا پر نہاری بنانے والے باورچیوں کو نیوزی لینڈ آنے کی دعوت دی جائیگی۔ بہر نوع میں نے پاکستانی رہنما سے مزید استفسار کیا کہ تو آپ نے اپنی تقریر میں جن مسائل کا ذکر کیا ہے، اُسکا کوئی وجود نہیں؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ وہ مسائل ابھی خلا میں ہیں، شاید دو تین سال بعد وہ زمین پر لینڈ کر جائیں ، اور ہم اُن سے دوچار ہوں۔ اِسلئے ہمیں اُن کےلئے نبرد آزما ہونے کیلئے تیار رہنا چاہیے۔
مسائل مسائل کا شور غوغا ہر جانب جاری ہے۔ اِسلئے ایک رہنما جو سٹیٹ سینیٹر کے امیدوارتھے، ایک پاکستانی نوجوان کو پکڑ کر پوچھ لیا کہ میں نے آپ کو دیکھا تھا کہ آپ حلق پھاڑ پھاڑ کر مسائل مسائل چیخ رہے تھے تو اب مجھے بتائیں کہ آپ کے مسائل کیا ہیں، اگر مجھ سے ممکن ہوسکا تو میں اُسے ضرور حل کر دونگا۔ سائل نے فورا” جواب دیا کہ میری شادی نہیں ہورہی ہے ، جو بھی لڑکی مجھے دیکھتی ہے وہ یہ کہتی ہے کہ میرا قد بہت چھوٹا ہے۔ سٹیٹ سینیٹر نے اُسے تسلی دیتے ہوے کہا کہ میں آپ کو ایک ایسا جوتا خرید دونگا جسے پہننے سے آپ کے قد میں اچانک 6 انچ کا اضافہ ہوجائیگا۔ سائل کو سینیٹ کے امیدوار کی بات بہت پسند آئی ، اور اُنہوں نے اُنکے ہاتھ کو چوم لیا۔ ایک دوسرے پاکستانی نے سٹیٹ امیدوار کو یہ عرضداشت پیش کی کہ اُسے ملازمت نہیں مل رہی ہے، جسے سن کر وہ بہت زیادہ حیران رہ گئے۔ اُنہوں نے اُنہیں کہا کہ آپ جیسے نوجوان اگر بے روزگار ہیں تو یہ انتہائی افسوس کی بات ہے، کیوں نہیں آپ لوگوں سے ملازمت دلوانے کی درخواست کرنے کے خود اُن علاقوں میں جاکر جہاں فیکٹریاں قائم ہیں وہاں کے ہر دروازے کو کھٹکھٹائیں۔ اگر ہفتے میں صرف چار دِن آپ یہ کام عزم کے ساتھ کریں اور پھر بھی آپ کو ملازمت نہ ملی تو آپ یہ سمجھیں کہ آپ دنیا کے ایک انتہائی نا اہل انسان ہیں۔