حیدر علی
جیو اور روزنامہ جنگ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمن کو اندر گئے ہوئے تین ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے جب وہ گرفتار ہوئے تھے تو لوگوں نے یہی سمجھا تھا کہ معمولی سا جرم ہے، زمین جو اُنہوں نے رعائتی قیمت پر صحافیوں میں تقسیم کرنے کیلئے خریدی تھی اُسے وہ اپنے بیٹے اور بیٹیوں میں نذر عنایت کردی، اُنکے اِسی فعل سے نیب کی بھوووںمیں بھونچال آگیا اور اُس نے اُنہیں اپنے شکنجے میں دبوچ لیاپھر بھی یہ کوئی سنگین جرم نہ تھا، لوگ اِسے پاکٹ ماری کے جرم سے مماثلت کرنے لگے جسے ایک ہفتے کی قید با مشقت کے بعد یہ تنبیہہ کر کے رہائی دے دی جاتی ہے کہ آئندہ اگر پاکٹ ماری کرتے ہوے پکڑے گئے تو 14 سال کیلئے اندر کر دئیے جا¶گے لہٰذا پاکٹ ماری سے توبہ کر لو، کوئی اور جرم کرنا ہو تو کر سکتے ہو، مثلا”مرغی چوری یا مسجد سے جوتا چوری۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جب نیب کے ایک تفتیشی افسر نے میر شکیل الرحمن سے پوچھا کہ آپ جنگ و جیو کے چیف ایڈیٹر کس طرح بن گئے جبکہ آپ کی اردو اور انگریزی دونوں زبانوں پر عبور صفر کے برابر ہے اور نہ ہی آپ کو بین الاقوامی سیاست میں کوئی بصیرت حاصل ہے۔ شکیل الرحمن نے جواب دیا کہ میرے پاس بلّا اور بال دونوں تھا، اِسلئے مجھے کپتان بننا ہی تھا، آپ گلی کی ٹیم کے قانون کو جانتے ہونگے،بہر نوع جیو اور جنگ سے وابستہ صحافیوں کاد عویٰ اب سرد پڑنے لگاہے، شروع شروع میں تو وہ میر شکیل الرحمن کیلئے آسمان سے تارے توڑ کر لانے کی باتیں کر رہے تھے، اپنی جدوجہد کیلئے کراچی کے سمندر ، بلوچستان کی چٹانوں اور پنجاب کے سبزہ زاروں پر تیر کمان سے حملہ آور ہونے کا اُنکا عزم تھالیکن جلد ہی وہ سب کا سب چائے کا بھاپ بن کر فضا میں تحلیل ہوگیااور اب صرف میر شکیل الرحمن کے مخصوص چمچے ہی گاہے بگاہے اپنا کالم اُن کےلئے وقف کرتے ہیں۔
اُنکا موقف بھی کچھ مبہم سا ہوتا ہے، مثلا” ایک صحافی نے تحریر کیا کہ میر شکیل الرحمن کی شخصیت ایسی ہے کہ اُنہیں جیل جانا ہی نہیں چاہیے تھا اگر حکومت کو اُنہیں نذر زنداں کرنا ہی تھا تو وہ اُنہیں کراچی کے انٹر کانٹی نینٹل میں کرتی تاکہ اُنہیں اپنی بیگم کے ہاتھوں کا پکا ہوا کھانا جس میں نرگسی کوفتہ ، شامی کباب، مٹن روسٹ ، مٹر کا پراٹھا اور بادامی فرنی شامل ہوتی ہے، تناول کر سکتے۔ کالم نگار رقمطراز ہے کہ میر شکیل الرحمن جیل کا کھانا جو دِن و رات وہی بھنڈی کی بھاجی پر مشتمل ہوتا ہے کھا کھا کر علیل ہو سکتے ہیں بلکہ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ میر شکیل الرحمن کی نگرانی کیلئے 24 گھنٹے ایک خوبصورت اور جوان نرس تعینات کرتی جو اُنکا بلڈ پریشر ہر گھنٹے جانچتی رہتی۔ کورونا وائرس کے خدشات کی وجہ سے اور بھی زیادہ ضروری ہوگیا ہے، مختلف حلقہ میں یہ افواہیں گشت کر رہی ہیں کہ میر شکیل الرحمن کو حکومت اُن کے سونے کے دوران کورونا وائرس کا کاک ٹیل اِنجیکٹ کردیتی ہے تاکہ وہ اُس موزی مرض میں مبتلا ہوجائیں لیکن کراچی کے باسی میر شکیل الرحمن بھی اپنی حفاظت کیلئے مطمئن بخش بندوبست کر رکھا ہے، اُنہیں روزنامہ جنگ میں اشتہار دینے والے سجادہ نشین ، پیران پیر ، بنگال کے جادوگر، سندھ کے جادو اور ٹونہ کے استاد اعظم کی خدمات حاصل ہیں اور جن کے جادو، دم اور پھونک سے میر شکیل الرحمن تا ہنوز صحیح و سلامت ہیں۔ہر چند کہ میر شکیل الرحمن کے حمایتیوں یا چمچوں کی تعداد دِن دونی رات چوگنی کم ہوتی جارہی ہے ، اِس کے پیش نظر جنگ و جیو کی انتظامیہ کیلئے کوئی اور چارہ نہیں رہ گیا ہے کہ وہ اُن کی شہرت کے بھرم کو قائم رکھے، لہٰذا جس کسی کو بھی اپنا نام روزنامہ جنگ میں شائع کرانا ہوتا ہے یا اپنی شکل جیو پر دکھانی ہوتی ہے، وہ میر شکیل الرحمن کی رہائی کرنے کا مطالبہ کر دیتا ہے۔
روزنامہ جنگ میں کراچی کے بھنگی ایسو سی ایشن کے صدر البرٹ مسیحی کا ایک بیان شائع ہوا ہے جس میں اُنہوں نے جنگ وجیو کے چیف ایڈیٹر میر شکیل الرحمن کو فوری طور پر رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے ، اُنہوں نے کہا ہے کہ اُنکی گرفتاری کی وجہ سے بھنگیوں کی آمدنی میں خاطر خواہ کمی آگئی ہے۔ میر شکیل الرحمن جب آزاد ہوا کرتے تھے تو بھنگیوں کو منہ مانگی بخشش دیا کرتے تھے ۔ بھنگیوں کیلئے اُن کا یہ حکم ہوا کرتا تھا کہ وہ نالے یا سڑکوں کی صفائی کرنے کے بجائے صرف اُنکے گھر کی صفائی کیا کریںیہی اُن کی ملازمت کے قائم رہنے کی ضمانت ہے۔کراچی ہی کی سائیکل مرمت کرنے والوں کی تنظیم ” سائیکل المرمت “ کے صدر مرزا عطا اﷲ بیگ نے کہا ہے کہ جنگ و جیو کے مالک میر شکیل الرحمن کو کو فوری طور پر رہا کیا جائے،اُنہوں نے کہا کہ بچپن میں جب بھی میر شکیل الرحمن کی سائیکل کا ٹائر پنکچر ہو تا تھا تو وہ اُن ہی سے مرمت کر وایا کرتے تھے، یہ اور بات ہے کہ کئی مرتبہ وہ معاوضہ دینا بھول گئے تھے لیکن میر شکیل الرحمن کی جوانی بڑی رنگیلی تھی، اُنہوں نے جب بھی اپنی گاڑی مرمت کیلئے یہاں لائی اُس میں کوئی حسین و جمیل لڑکی بیٹھی ہوتی تھی۔
تاہم دوسرے اخباروں اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے لکھاری میر شکیل الرحمن کو اپنی سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، اُن میں سے ایک مقتدر صحافی کی رائے میں پاکستان کی فی کس آمدنی کے تناسب سے روزنامہ جنگ کی قیمت 20 روپے بہت زیادہ ہے، اُن کی رائے میں اِس روزنامہ کی قیمت کسی بھی قیمت پر 5 روپے سے زیادہ نہ ہونا چاہیے، ناقدین کی رائے میں روزنامہ جنگ کا معیار بھی بہت زیادہ پھسپھساسا ہے، یہ اخبار قومی پالیسی کو وضع کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرتایا اِس کی تمام کوششیں رائیگاں جاتی ہیں، مذکورہ اخبار اُسی پالیسی پر گامزن ہوجاتا ہے جس کی حمایت پاکستان کے جاہل ، مذہبی ،جنون کے شکار تشدد پسند افراد کرتے ہیں۔