بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے سوچا تو یہ تھا کہ جب وہ اپنے دورہ بنگلہ دیش پر وہاں پہنچیں گے تو اُن کا شایان شان استقبال کیا جائیگا، پھولوں کی بارشیں اُن پر کی جائینگی ، خوبصورت بنگالی دوشیزائیں اُنہیں گلدستہ پیش کرینگی،جگہ باجگہ لوگوں کا ہجوم اُن کا استقبال کریگا، آتش بازیوں کا مظاہرہ اُن کی اعزاز میں کیا جائیگا لیکن شومئی قسمت کہ وزیراعظم مودی کے کسی بھی خواب کی بنگلہ دیش میں تعبیر نہ ہوسکی،وہ چور کی طرح بنگلہ دیش گئے ، اور چور کی طرح وہاں سے بھاگے، بنگالی دوشیزا¶ں نے وزیراعظم نریندر مودی کو پھولوں کا گلدستہ پیش نہیں کیا،جب نریندر مودی نے اِس کا استفسار بنگلہ دیش کے ایک اعلی ٰافسر سے کیا تو اُس نے اُنہیں کھرا کھرا جواب دیتے ہوئے یہ کہا کہ بنگالی لڑکیاں بہت زیادہ اسلام پسند بن گئی ہیں، وہ گلدستہ صرف اُنہیں ہی کو پیش کر تی ہیں جن سے اُنہیں شادی کرنی ہوتی ہے،ویسے بھی آپ کے متعلق یہاں افواہیں زبان زد عام ہیں کہ آپ کو عورتوں سے کوئی دلچسپی نہیں، قطع نظر لاری لپّا کے بنگلہ دیش کے عوام سے بھی وہ اپنے کرتوت کی وجہ کر کوسوں فاصلے پر رہے، سب سے اول تو بنگالیوں کا گلہ یہ تھا کہ وزیراعظم نریندر مودی جو ایک مسلمانوں کا دشمن ہے کو بنگلہ دیش کی جشن آزادی کی گولڈن جوبلی تقریب میں مدعو ہی نہیں کرنا چاہیے تھااگرچہ بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ یہ امید لگائے بیٹھیں تھیں کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے بنگلہ دیش کی پچاسویں جشن آزادی کی تقریب میں اُن کی شرکت بنگلہ دیش اور بھارت کے مابین تعلقات کیلئے سنگ میل ثابت ہوگی لیکن اُن کی امید پر بھی پانی پھیر گیا۔وزیراعظم مودی بنگلہ دیش 26 مارچ کو بنگلہ دیش کی آزادی کے موقع پر پہنچے،اتفاقیہ طور پر یہ بنگلہ دیش کے بابائے قوم اور وہاں کی وزیراعظم شیخ حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمن کا جنم دِن بھی تھا،اُن کے دورہ سے قبل ہی بنگلہ دیش کے مختلف اضلاع میں حزب اختلاف کی جماعتوں کا گرا¶نڈ ورک جاری تھا، اور سونام گنج شالا کے شہر میں احتجاجیوں نے ہندو¶ں کے 90 مکانات جلا کر خاکستر کر دئیے تھے تاہم اُن کی آمد کے بعد مخالفین کی سر گرمیوں میں اور بھی شدت آگئی تھی۔ ڈھاکہ کی بیت المکرم مسجد سے جمعہ کی نماز کے بعد احتجاجیوں کا ایک گروہ مودی کے دورہ کے خلاف نعرہ لگاتے ہوے سڑکوں پر چلا آیا۔چند لمحہ بعد ہی پولیس اور احتجاجیوں کے مابین سخت تصادم شروع ہوگیا، پولیس نے احتجاجیوں کے خلاف لاٹھی، آنسو گیس حتی کہ ربڑ کی بلٹ کا بے دریغ استعمال کیا جس میں صحافیوں سمیت سینکڑوں مظاہرےن زخمی ہوگئے،اِس کے ردعمل میں احتجاجی تحریک بنگلہ دیش کے طول و عرض میں پھیل گئی جس کی قیادت بنگلہ دیش کی جنگجو اسلامی تنظیم حفاظت اسلام نے سنبھال لی، جس کا واحد مقصد نریندر مودی کے دورہ بنگلہ دیش کی مخالفت ، اور بیت المکرم مسجد کے سامنے پولیس کی ظالمانہ کاروائی کی مدمت کرنا تھا،حفاظت اسلام نے 28 مارچ کے دِن ملک گیر ہرتال کی اپیل کی، جسے بنگلہ دیش کے عوام نے لبیک کہاپولیس نے ہرتال کو کامیاب بنانے والوں پر آنسو گیس اور ربڑ کی بلٹ چلائی ڈھاکہ اور اِسکے ایک قریبی شہر برہمن بڑیا نے ماضی قریب میں اپنی تاریخ کا ایک بدترین دِن دیکھا تھااحتجاجیوں نے وہاں ریلوے کی ٹرین، بسیں ، ہندو¶ں کے منادر کو آگ لگادیں © دکانیں اور چند گھروں کو بھی نذر آتش کر دیااِن ہنگاموں کے دوران کم از کم دو درجن سے زائد افراد ہلاک اور سینکڑوں کی تعداد میں زخمی ہوے،نریندر مودی کی پارٹی بی جے پی کی مسلمان دشمنی پالیسی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں خود نریندر مودی گجرات میں مسلم کش فساد میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا، جس کی وجہ کر ہزاروں غریب و سادہ لوح مسلمان شہید ہوگئے تھے۔ اِس جرم کی پاداش میں امریکی حکومت نے نریندر مودی کا امریکا کے ویزے کو معطل کر دیا تھا،2019 ءکے ایک انتخابی مہم میں نریندر مودی کی پارٹی کا وزیر داخلہ امیت شاہ نے بنگلہ دیش سے آئے ہوے غیر قانونی تارکین وطن مسلمانوں کو دیمک کے کیڑے سے تشبیہہ دیتے ہوے کہا تھا کہ ہم اِن تمام شر پسندوں کو ایک ایک کر کے گرفتار کرینگے اور پھر اُنہیں بے آف بنگال میں پھینک دینگے،امیت شاہ کے تبصرے نے بنگلہ دیش کے عوام میں سخت ناراضگی کا باعث بن گیا تھا مزید برآں 2019ءمیں ہی مودی کی حکومت نے ایک قانون کا نفاذ کیا تھا جس کی رو سے بھارتی حکومت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آئے ہوے اقلیت طبقہ کے افراد کو سیاسی پناہ دے گی لیکن اُس قانون سے مسلمانوں کو مکمل”نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ سٹیزن شپ ترمیم ایکٹ مسلمانوں کے حقوق کے خلاف ایک قانون تعبیر کیا گیا تھا اور جس کی بھارتی حکومت کی مخالف جماعتوں نے بھی مذمت کی تھی، بنگلہ دیش میں بھی اِس قانون پر سخت احتجاجی مظاہرہ ہوا تھا۔بنگلہ دیش میں حالات کدھر کو جارہے ہیں اِس موضوع پر قیاس آرائیاں کرنا کوئی آسان کام نہیں ایک جانب یہ ایک حقیقت ہے کہ عوامی لیگ اور اِس کی سربراہ کا سنہرا خواب کہ بنگلہ دیش ایک سیکولر ریاست کے طور پر بین الاقوامی فورم میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا، چکنا چور ہوگیا ہے، دوسری جانب شیخ حسینہ کی اقتدار اعلی پر قابض رہنے کی حکمت عملی ، فوج ، پولیس اور عدالت پر اُن کی غیر متزلزل گرفت اسلام پسند جماعتوں کیلئے ایک دشوار کن بلکہ نا ممکن مرحلہ بن گیا ہے کہ وہ بنگلہ دیش میں اسلامی حکومت حکومت کے قیام کے اپنے خواب کی تعبیر کر سکیںلہٰذا فی الوقت بنگلہ دیش ایک ایسا سیاسی منظر نامہ بن گیا ہے جہاں پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم ، آزادی رائے و تحریر کا فقدان، لوگوں کی بے دھڑک گرفتاریاں، سیاسی بنیاد پر قتل اِس کے روز مرہ کے خبروں کی زینت بنتی رہیں گی۔