شمیم سیّد،بیوروچیف ہیوسٹن
سلمان یونس صاحب کا شمار پاکستان کے اُن پرانے لکھاریوں میں ہوتا ہے جو پاکستان کی تشکیل میں بھی اپنا کردار نبھاتے رہے ہیں اور جب جب جہاں جہاں استحصال ہوتے دیکھا بے راہ روی اور بے ایمانی دیکھی وہاں سلمان صاحب کُود پڑتے تھے کبھی اسٹوڈنٹ لیڈر کے طور پر ،کبھی ٹریڈ یونینسٹ کے طور پر مسائل سے نپٹتے ہوئے نظر آئے، ان کے دل میں پاکستان کی محبت کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی ہے، گفتگو میں ایسی عاجزی، درد مندی اور انکساری ہوتی ہے کہ ان کی باتیں سُنتے ہوئے اُکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔ اُن کے سامنے پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ شہر کراچی کو پھلتے پُھولتے دیکھا اور پھر بگڑتے ہوئے بھی دیکھا اس وقت پچاسی سال سے زائد عمر ہو چکی ہے، بیماری میں گھرے ہوئے ہیں لیکن جو ان کے اندر لکھنے کا حوصلہ اور ولولہ ہے وہ بدرجہ اتم اب بھی موجود ہے اور وہ ہار ماننے والے انسان نہیں ہیں۔ اُن کی کتاب باتیں کراچی کی، جب شائع ہوئی تو اس کو بہت پذیرائی ملی جو کہ کراچی کےلئے ایک انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے میں نے اس وقت بھی اُس پر اپنے ٹوٹ ےپھوٹے الفاظوں میں کالم لکھا تھا۔ کیونکہ مجھے اپنی تعریف سے زیادہ ایسے پڑھے لکھے لوگوں کی دعاﺅں کی ضرورت رہتی ہے ویسے تو ان کی کتاب پر رضا علی عابدی، یونس شرر، سید ادیب حسین، عبید الرحمن ایڈووکیٹ اور کیا لکھوں ان کی کتاب کے بارے میں لکھنے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے کراچی کے بعد اب انہوں نے ایک اور معرکة آرا کتاب ”باتیں پاکستان کی“ ان کے لکھنے کا انداز جُدا گانہ ہے وہ لکھتے نہیں ہیں باتیں کیا کرتے ہیں ان کا حافظہ بہت زبردست ہے انہوں نے کوئی فرض داستانیں نہیں گھڑی ہیں بلکہ حقیقی باتوں کو اپنے قلم کے زور پر یکجا کیا ہے اور سمندر کو ایک کوزے میں بند کر دیا ہے ابھی میں نے پوری کتاب کو نہیں پڑھا ہے 3 دن پہلے مجھے یہ کتاب ان کے بیٹے ناصر نے دی تھی بہت ہی فنحیم 445 صفحوں پر مشتمل خوبصورت سرورق اور عمدہ کتاب پیسہ بھی اعلیٰ کوالٹی کا استعمال کیا ہے۔ دس سال کی عمر میں پاکستان آگئے تھے، لکھنے کی صلاحیت اپنے ووالد جوہر عظیم آبادی مرحوم سے ورثہ میں ملی شاعر تو نہ بن سکے لیکن ادیب بن گئے۔ اپنی یادداشت کے بل بوتے پر انہوں نے ایسے ایسے واقعات رقم کئے ہیں جو ہماری نوجوان نسل کو حیرت میں ڈال دے گی۔ انہوں نے باتیں پاکستان کی، میں جدوجہد آزادی سے لے کر ترکی کی خلافت تحریک، پنجاب، بلوچستان، صوبہ¿ سندھ، گجرات تمام تحریکوں کے بارے میں باب رقم کئے ہیں پاکستان کے پہلے صدر سے لے کر موجودہ حکمرانوں تک کو اپنی اس کتاب میں جگہ دی ہے تمام سربراہوں کے بارے میں ان کے کارنامے اور خامیاں بیان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے یہ کتاب پاکستان کے بارے میں ایسی نادر دستاویز ہے جسے ہماری حکومت کو چاہیے کہ ہماری نوجوان نسل کو آگاہی دی جائے تاکہ ان کو پاکستان کے بارے میں تمام معلومات حاصل ہوں، ہمارا ملک کن کن حالات سے گزر رہا ہے کس طرح ہمارے ملک کو ہمارے حکمرانوں نے لُوٹا ہے۔ یہ کتاب ایک سرمایہ ہے اور ہماری حکومت کو چاہیے کہ ایسے لوگوں کو تمغہ¿ امتیاز ملنا چاہیے جو واقعی مستحق ہیں ہمارے ہیوسٹن میں بھی بڑی بڑی تنظیمیں ہیں کیا ان کو کبھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ ایسی شخصیت ہیوسٹن میں رہتی ہیں جس نے ادب میں ایک نام کمایا ہے ان کو کوئی اعزاز دیا جائے ان کی زندگی میں اس وقت ان کی جو حالت ہے اس کے باوجود وہ ایسے کام کر رہے ہیں ہمیں فخر ہے جناب سلمان یونس پر جنہوں نے کراچی اور پاکستان کے بارے میں دو نادر کتابیں ہماری نئی نسل کےلئے ہم تک پنچائی ہیں۔ میری درخواست ہے ان تمام مخیر حضرات سے کہ وہ ان کی اس خدمت میں ان کا ساتھ دیں اور یہ کتابیں ان سے حاصل کریں۔ رابطے کیلئے 281-726-3143 پر کال کریں۔
٭٭٭