حیدر علی
میرے ایک دوست کے ماشااﷲگیارہ بچے ہیں، جب بھی اُنہیں فٹ بال یا کرکٹ کھیلنا ہوتا ہے تو اُنہیں اپنی ٹیم کیلئے محلے کے کسی اور بچے کو لینے کی ضرورت نہیں ہوتی ، اُنکے ہی سارے لڑکے اور لڑکیاں ٹیم مکمل کر لیتی ہیں۔ جی ہاں لڑکیاں بھی اپنے کمر میں دوپٹہ باندھ کر میدان میں کود پڑتی ہیں کیونکہ میں اِس قول کو کہ بڑھا¶ نہ دوستی آپس میں زیادہ کہ ہوجائے دوستی سے دشمنی زیادہ کو ہمیشہ پیش نظر رکھتا ہوں۔ اِس امر میں خطرے کا محال کچھ زیادہ ہی ہے اگر ہمارے دوست کو ہماری کوئی بات ناگوار گزر جائے اور وہ اپنی آنکھوں کا اشارہ اپنے کمانڈوز کے پلاٹون کو کردیں تو ہماری ہڈی پسلی ایک ہو سکتی ہے۔ اِسلئے جب بھی وہ کچھ کہتے ہیں تو میں اُن کی ہاں میں ہاں ملاتا ہوں، مثلا” جب کبھی وہ کہتے ہیں کہ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا دور سنہرا تھا تو میں کہتا ہوں کہ حضور سنہرا نہیں ہیرے کا تھا ۔ہیرے کا اور پھر کبھی وہ کہتے ہیں کہ عمران خان پاکستان کا ایک تگڑا نوجوان وزیراعظم ہے تو میں اُن کی لے پر لے ملاکر کہتا ہوں کہ سر جی! ابھی بھی وہ کسی گوری کو پچھاڑ سکتا ہے، کپتا ن ہے کپتان لیکن چند دِن قبل میرے دوست کی زندگی میں ایک اہم تبدیلی آگئی اور اُنہوں نے مجھے انکشاف کیا کہ اُنکی بیگم پھر اُمید سے ہیں۔ یہ سُن کر مجھ پر تو آسمان ٹوٹ پڑاپھر میں نے سوچا کہ یہ مسئلہ اُن کا ہے ،میرا تھوڑے ہی نا، اگر اُنہوں نے آج مجھے کہا ہے کہ اُن کی بیگم اُمید سے ہیں اور چند ماہ بعد پھر وہ یہ نہ کہہ دیں کہ اُنکی بیوی پھر اُمید سے ہیںاور اُس کے ایک سال بعد پھر وہ اعلان نہ کردیں کہ اُن کی بیگم پھر امید سے ہیں اور یہ سلسلہ اُس وقت تک نہ رکے جب تک کہ اُن کے گھر میں کرکٹ کی ایک کے علاوہ اُس کی مخالف ٹیم بھی جنم نہ لے لے۔
جب سے کورونا وائرس کے لاک ڈاﺅن کا سلسلہ شروع ہوا ، کسی کو کام کاج کرنے کا کوئی موقع نہ رہا، سب کے سب گھر میں بیٹھے سوتے رہتے ہیں یا نہیں تو ٹی وی دیکھتے رہتے ہیں جو شادی شدہ ہیں وہ اپنی بیگم کو دیکھتے رہتے ہیں، جو غیر شادی شدہ ہیں وہ اپنے منگیتر کو تلاش کررہے ہیں،لہٰذا موقع ملتے ہی بچے پیدا کرنے کی فیکٹری چلنا شروع ہوجاتی ہے۔ میں نے پھر سوچا کہ بہر حال یہ مسئلہ تھوڑے ہی نہ میرا ہے۔ میں نے اُن کی ہمت افزائی کرتے ہوے کہا کہ واہ واہ!اب تو آپ کی ٹیم میں ایک ایکسٹرا کھلاڑی بھی شامل ہوجائیگا اور استثنیٰ میں اضافے کی وجہ ٹیکس ریفنڈ کی رقم بھی زیادہ آیا کرے گی لیکن میرے دوست نے مجھے بتایا کہ اُن کے بھائی جان اُن سے ناراض ہیں۔ بقول اُن کے بھائی جان کہ یہ وقت کوئی بچے پیدا کرنے کا نہیں،یہ اُنہوں نے غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے کہ اُنہوں نے اپنی بیگم کو پھر سے اُمید سے کر دیا ہے۔ میں نے اپنے دوست کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے بھائی جان کو نہاری پارٹی پر مدعو کرلیں اور مجھے بھی بلا لیں، میں بھی اُنہیں سمجھادونگااور نہاری کے چرب دار لقمہ کو کھا کر اُن کا غصہ بھی ٹھکانے لگ جائیگا ، وہ صحیح الدماغ ہوجائینگے۔ ویسے بھی یہ کوئی چین تو نہیں ، جہاں بچے پیدا کرنے سے قبل پرمٹ لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ایک بچے سے زیادہ ہوں تو جرمانہ دینا پڑتا ہے۔
بہرکیف صرف یہی میرے دوست نہیں جنہوں نے مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ اُن کی بیگم امید سے ہے بلکہ درجنوں میرے دوستوںنے سرگوشی میں سنجیدگی سے مجھے یہ پیغام دیا کہ صلّو کی اماں پھر امید سے ہیں۔ ماشااﷲ اُن کی آل اولاد پہلے سے ہی کچھ کم نہ تھی بعض کے تو جوان لڑکے ہیں، جو خود اپنی منگیتر کو تلاش کر رہے ہیں، اب اُنہیں یہ اطلاع بھی دینی پڑتی ہے کہ اُن کی ہونے والی منگیتراُنکے والد کی نئی شاہکار کو اپنی گود میں لے کر وارے نیارے ہوجائیگی ۔وہ اُسے اتنا پیار دیگی کہ اُسے بھول جائیگی اور کچھ تو ہمارے ایسے دوست بھی ہیں جن کیلئے یہ یقینا مسرت کا لمحہ ہے، اُنہوں نے انتہائی گرمجوشی سے مجھے یہ مژدہ سنایا کہ وہ ہوگیا ،ارے وہ ہوگیا۔ سالہا سال سے وہ بچے کی پیدائش کیلئے کوشاں تھے©، کبھی وہ اِس ڈاکٹر کے پاس جارہے تھے تو کبھی اُس ڈاکٹر کے پاس، کبھی اِس حکیم کے پاس جاکرانتہائی مایوسی میں اپنا درد دِل بیان کرتے تھے اور درخواست کرتے تھے کہ اُنہیں مردانہ کمزوری نہیں ہے، لیکن پھر بھی وہ اُنہیں مردانہ کمزوری دور کرنے والا معجون دیںاور اب انشااﷲ اُنکی بیگم بھی امید سے ہیں اور جب راستہ کھل گیا ہے تو اور بھی بچے آتے ہی رہیں گے۔
قطع نظر امریکا اور ترقی یافتہ ممالک کے جنوبی مشرقی ایشیا میں بچوں کی پیدائش میں10 سے 20 فیصد اضافے کا امکان ہے،یہ سب کے سب بچے لاک ڈاﺅن کی افزائش نسل ہونگے، خصوصی طور پر بھارت میں بچوں کی شرح پیدائش کو بڑی گہری نظر سے دیکھا جارہا ہے کیونکہ لاک ڈا¶ن کے دوران بھارت دنیا بھر میں عریاں فلمیں دیکھنے میں صف اوّل کا رتبہ حاصل کر لیا ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہاں کورونا وائرس سے شرح اموات انتہائی تشویشناک نہیں ہے اور لوگوں کی سوشل زندگی اُسی نہج پر ہے جو کورونا وائرس کے پھیلنے سے قبل تھی یہی صورتحال پاکستان میں بھی ہے لیکن توقع ہے کہ امریکا میں شرح پیدائش میں مزید کمی واقع ہوجائیگی، وجہ اِس کی کورونا وائرس سے زیادہ معاشی بھونچال بتائی جارہی ہے۔ ماہر شماریات کی رائے میں سال رواں میں گذشتہ 35 سال کے مقابلے سے کم ہوکر 1000 کی آبادی میں صرف12 بچوں کی پیدائش رہ گئی ہےں تاہم آخری نمبر دسمبر کے ماہ میں آنا ہے۔