پی آئی اے کی نااہلیت کا منہ بولتا ثبوت!!!

0
492
شمیم سیّد
شمیم سیّد

شمیم سیّد،بیوروچیف ہیوسٹن

خدا کا لاکھ شُکر ہے کہ اس سال عید الفطر ایک ہی روز منائی گئی ،تمام دنیا میں اب اس بحث سے نکل جانا چاہئے کہ چاند 29 کا تھا یا 30 کا لوگوں کو چاند نظر آگیا اور بلا کسی تردید کے تمام مسلکوں نے عید کا اعلان کر دیا، اللہ کرے کہ یہ یکجہتی قائم رہے۔ جن حالات میں عید کی نماز ہوئی وہ رونقیں تو کرونا نے چھین لیں لیکن اس کے باوجود جہاں جہاں نمازیں ہوئیں وہ سب احتیاطی تدابیر کےساتھ ہوئیں۔ پی آئی اے کے حادثے نے ہماری قوم کو جو اذیت پہنچائی وہ نہ بھولنے والی داستان ہو گئی ہے، انتہائی لاپرواہی اور نا اہلی کے سبب یہ حادثہ پیش آیا، ہماری قوم کی بد نصیبی یہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں نا اہل بھرتیوں نے ہمیشہ ان حادثوں سے دوچار کیا ہے۔ اب یہی اعلان کیا جا رہا ہے کہ شفاف طریقے پر انکوائری ہوگی ۔ارے بھائی پہلے ایئر بلیو اور پھر پی آئی اے اور اب پھر پی آئی اے ان کی کون سی انکوائری ہوئی ہے اور آج تک وہ لوگ انتظار میں ہی ہیں کہ کوئی انکوائری رپورٹ سامنے آئے اور نہ ہی کوئی شہید ہونےوالوں کو اب تک کوئی پیسہ دیا گیا ہے۔ ٹیکنیکل ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ ہم نے بتا دیا تھا اور پرزوں کیلئے کئی مرتبہ درخواست بھی دی تھی لیکن اس کے باوجود کوئی شنوائی نہیں ہوئی اور جہاز کو کس طرح اُڑانے کی اجازت دی گئی۔ سارا الزام جہاز کے پائلٹ پر آرہا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پائلٹ کی نا تجربہ کاری کا بھی اس میں بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اس نے جس طرح لینڈنگ کی اور جب جہاز کے انجن زمین سے لگ کر ٹوٹ گئے تو پھر دوبارہ جہاز کو اوپر لے جانے کی کیا ضرورت تھی ،اس کو تنبیہہ کی جاتی رہی لیکن اس نے کنٹرول ٹاور کی ایک نہیں سنی۔ پالپا کے منہ چڑھے بہت سے پائلٹ اس طرح کرنے کے عادی ہوتے ہیں جو کنٹرول ٹاور کی نہیں سنتے ہیں بالخصوص اگر وہ سویلین کنٹرولر ہو، ائیر فورس کے کنٹرولروں سے البتہ ان کی جان جاتی ہے وگرنہ تو بہت سارے یورپی یا افریقی ممالک کے کنٹرولر کے احکامات پر عمل کرنے کے بجائے وہ ٹرانسمیشن کو بند کر دیتے ہیں کیونکہ ایسے کمی کمین کنٹرولروں کی بات ماننا ان کیلئے انتہائی تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ رن وے سے عموماً دو تین منٹ پہلے پائلٹ لینڈنگ گیئر کھول لیتے ہیں تاکہ کسی بھی ایمر جنسی کی حالت میں مشکل سے نبٹنے کیلئے اضافی وقت میسر ہو جو کہ پائلٹ نے نہیں کیا۔ جہاز کوئی موٹر سائیکل یا کار نہیں تھی جسے دائیں بائیں موڑنا ہو حد سے زیادہ خود اعتماد پائلٹ کو جب تک سمجھ آتی جہاز نیچے رن وے پر رگڑنا شروع ہو گیا تھا۔اس کو چاہیے تو یہی تھا کہ وہ بیلی لینڈنگ کر لیتا لیکن اس نے پھر دوبارہ جہاز کو اوپر لے جانے کی کوشش کی جبکہ انجن جواب دے چکے تھے۔ چند سو میٹر کے فاصلے پر اس جہاز کی منزل اس کے سامنے تھی مگر کون جانتا تھا کہ منزل سے محض چند سو میٹر کے فاصلے پر ان کی آخری منزل ان کی منتظر ہے۔ عینی شاہدوں کے مطابق ایسی حالت میں بھی ہمارے میڈیا کا ایک بندہ فوج کے جوانوں سے ملبے کے قریب آنے کیلئے لڑ رہا تھا ۔صرف ایک شاٹ لینے کیلئے اس کو صرف اپنی ریٹنگ چاہیے تھی۔ اللہ جانے کون بشر تھا۔ وہاں کے مکینوں نے جس طرح مدد کی اور فوجی جوانوں نے ان کو خراج تحسین پیش کرنا ضروری ہے۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ ہم لوگ میرٹ پر بھرتیاں نہیں کرتے ہیں ۔اقرباءپروری، رشوت ستانی ہر شعبہ میں ہی نظر آتی ہے۔ وہ چاہے کوئی سا بھی شعبہ ہو ہمارے ہاں چاہے وہ صحافت ہو، سیاستدان ہو، عدلیہ ہو، پائلٹ ہوں ہر جگہ نا اہل لوگ موجود ہیں جو کسی سفارش یا رشوت دے کر ان محکموں میں بھرتی ہو جاتے ہیں اور پھر ان کی نا اہلی کی وجہ سے نقصان ان غریب عوام کا ہوتا ہے۔ اس لئے جب تک اس ملک سے یہ سب چیزیں ختم نہیں ہونگی یہی کچھ ہوتا رہے گا ۔پہلے بھی تو پی آئی اے کا سب سے بڑا نام تھا آخر کیا وجہ ہے کہ آج پی آئی ا ے تمام دنیا کی ایئر لائنوں سے کم تر سمجھی جاتی ہے ،نہ جانے کب رپورٹ آئے گی ؟شاید جس طرح پہلے جہازوں کی تباہی کی رپورٹیں سامنے نہیں لائی گئیں، اسی طرح یہ بھی سرد خانے میں ڈال دی جائے گی اگر عمران خان حکومت نے اس حادثے میں ملوث لوگوں کو قرار واقعی سزا نہ دی تو پھر ہماری حکومت اور عمران خان کا اللہ ہی حافظ ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here