نیویارک(پاکستان نیوز) اقوام متحدہ میں امریکہ کے سیاہ فام سفیر کی نسلی پرستی کے ایشو پر چین کے نمائندے سے تکرار ہوئی ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکہ کے سفیر برائے اقوام متحدہ لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے نسلی امتیاز کے خاتمے کے عالمی دن کے حوالے سے ہونے والے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران کہا کہ ان کا نسلی امتیاز کے حوالے سے تجربہ ایک چیلینج رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’مگر نسلی امتیاز کا معاملہ میانمار اور چین جیسے ممالک میں لاکھوں لوگوں کے لیے مہلک رہا ہے۔‘ امریکی سفیر نے کہا کہ ’ہم جہاں بھی ہیں نسل پرستی روزانہ کا چیلینچ ہے اور لاکھوں لوگوں کے لیے یہ چیلینج سے بڑھ کر ہے بلکہ یہ مہلک ہے۔‘ ‘برما کی طرح جہاں روہنگیا پر ظلم ڈھائے گئے، تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بڑی تعداد میں لوگوں کو قتل کیا گیا۔ یا چین جہاں حکومت نے ایغور مسلمانوں اور دوسرے لسانی اور نسلی گروہوں کے خلاف سنکیانگ میں نسل کشی کی اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔‘ جواب میں اقوام متحدہ میں چین کے نائب سفیر دائی بنگ نے کہا کہ تھامس گرین فیلڈ نے اپنے ملک کے شرمناک انسانی حقوق کے ریکارڈ کو تسلیم کیا تاہم یہ ان کو لائسنس نہیں دیتا کہ وہ بلند گھوڑے پر سوار ہو کر دوسرے ممالک کو لیکچر دیں کہ ان کو کیا کرنا چاہیے۔‘ امریکی صدر جو بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد چین کے ساتھ اعلی سطح پر ہونے والے پہلے رابطے کے ایک ہی دن بعد اقوام متحدہ میں ہونے والی تکرار دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان تناو¿ کو ظاہر کرتا ہے۔چین کے سفیر نے کہا کہ ’اگر امریکہ کو انسانی حقوق کا واقعی خیال ہے تو اسے اپنی سرزمین پر نسلی تعصب اور امتیاز، سماجی ناانصافی اور پولیس کی بربریت کے مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔‘ خیال رہے منی سوٹا میں پولیس کے ہاتھوں امریکی سیاہ فام شخص جارج فلوئیڈ کی ہلاکت اور ملک کے دوسرے علاقوں میں سیاہ فام افراد کی ہلاکت کے بعد امریکہ بھر میں نسلی تعصب، امتیاز اور پولیس کی جانب سے سیاہ فام افراد کے خلاف طاقت کے بے جا استعمال کے خلاف مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔ تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ ’ہمارے ہاں خامیاں ہیں، بہت زیادہ خامیاں لیکن ہم ان کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں اور ہم انہیں دور کرنے کے لیے کام کرتے ہیں اور ہم کوشش کرتے ہیں اس امید میں کہ جو دنیا ہمیں ملی ہے اس کو بہتر صورت میں چھوڑ جائیں۔‘ چین پر ایغور مسلمانوں کو امتیازی سلوک اور ظلم کا نشانہ بنانے پر ہر طرف سے تنقید ہوتی رہی ہے۔ دائی بنگ نے کہا کہ سنکیانگ میں کوئی نسل کشی نہیں ہورہی ہے۔