یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
دو نیم اِن کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
اگر پاکستان کی کرکٹ ٹیم علامہ اقبال کی اِس نظم پر پوری نہیں اُترتی تو پھر اور کون اُن کا مقابلہ کر سکتا ہے؟ اُن کی ہیبت ناک طوفان ایکسپریس بالنگ سے مخالف ٹیم کے کھلاڑیوںکے بلے چکنا چور ہونا شروع ہوگئے ہیں، جگہ جگہ مخالف ٹیموں کے کھلاڑی یہ سرگوشی کر رہے ہیں کہ پاکستان کی ٹیم انتہائی خطرناک ہے اور کسی بھی ٹیم کی وکٹوں کو ہوا میں پرواز کر اسکتی ہے۔ کل تک بھارتی مبصرین جو یہ تبصرہ کیا کرتے تھے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم صرف دو بیٹسمین بابر اعظم اور محمد رضوان پر مشتمل ہے ، اگر یہ دونوں آؤٹ ہوگئے تو ٹیم فورا”ڈھیر ہوجاتی ہے۔ لیکن آج وہ اپنے تبصرے پر شرمندہ ہیں اور مڈل آرڈر کا جو شوشہ اُنہوں نے چھوڑا تھا اُس سے فورا”دستبردار ہوگئے ہیں، کیونکہ نیوزی لینڈ کے خلاف سہ فریقی سیریز میں پاکستان کے دونوں سفید گھوڑے آؤٹ ہوگئے تھے لیکن مڈل آرڈر کے دوسرے کھلاڑیوں نے چھکا مار مار کر ساری دنیا کو حیران کر دیا تھا۔ انشااﷲپاکستان کی ٹیم اُسی کھیل کا مظاہرہ او ڈی آئی ورلڈ کپ کرکٹ میں بھی کرے گی۔ کیونکہ اِس ٹیم کے ساتھ پاکستان کے غریب عوام کی دعائیں شامل ہیں۔اعصابی جنگ کی ابتدا تو بہت قبل ہوچکی تھی لیکن اب سوکر اور کرکٹ کے مابین حقیقی جنگ او ڈی آئی کرکٹ ورلڈ کپ کے انعقاد کے ساتھ شروع ہوچکی ہے۔ آسٹریلیا نے الزام لگایا ہے کہ قطر کے حکام اُن کے تماش بینوں کو بہلا پھسلا اور بہکاکر کرکٹ ورلڈ کپ کے بجائے سوکر ورلڈ کپ میں لے جانے کی غیر شریفانہ کوشش کر رہے ہیں۔ آسٹریلیا کے حکام کا کہنا ہے کہ کرکٹ ایک مہذبانہ کھیل ہے جسے کھیلنے کیلئے کھلاڑی پتلون زیب تن کرکے میدان میں آتے ہیںجبکہ سوکر کے کھلاڑی نیکر پہن کر بندروں کی طرح میدانوں میں کود جاتے ہیں۔ کرکٹ اور سوکر کے تماشہ بینوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔ کرکٹ کے تماش بین اپنی فیملی کے ساتھ خوش لباس ، خوش اخلاق اور مسکراتے ہوے چہرے کے ساتھ جلوہ افروز ہوتے ہیںجبکہ سوکر کے تماشہ بین مسلح ہوکر جارحانہ اطوار کے ساتھ اسٹیڈیم میں قدم بوس ہوتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کھیل دیکھنے نہیں بلکہ جہاد کرنے آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تھوڑی سی بات پر اُن کے مابین ہاتھا پائی اور پھر خون خرابہ شروع ہوجاتا ہے۔دنیا کے کسی اسٹیڈیم میں کھیل کے درمیان جب بھی کوئی تصادم ہوتا ہے تو وہ سوکر کے شائقین کے مابین ہوتا ہے۔ لندن ، پیرس یا فرینکفرٹ کی شاہراہوں پر آپ جب بھی کسی کے سر پہ پٹی بندھی ہوی دیکھیں گے تو آپ بلا تامل یہ قیاس کر سکتے ہیں کہ مذکورہ شخص سوکر کی جنگ میں شہید ہوگیا ہے۔کھیل کے میدان کی جنگ فورا”اسٹیڈیم کے بینچوں تک پہنچ جاتی ہے۔اگر کوئی کھلاڑی اپنے حریف کو لنگھی مارتا ہے تو اُس کے حمایتی فورا”آہ کہتے ہوے میدان میں کود جاتے ہیں اور جنگ شروع ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سوکر کھیلنے والوں پر بیشمار پابندیاں عائد کر دیں ہیں۔ اسٹیڈیم میں داخل ہوتے وقت اُن کی جامہ تلاشی لی جاتی ہے بلکہ بعض اوقات تو اُن کے جوتے تک بھی اُتر وادیئے جاتے ہیں۔ آسٹریلیا کے حکام نے اپیل کی ہے کہ اِن تمام باتوں کے پیش نظر کرکٹ کے شیدائی قطر جانے کے بجائے آسٹریلیا تشریف لائیں اور کرکٹ کے کھیل کو انجوائے کریں۔
ادھر قطر کے حکام نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ جب وہ ورلڈ کپ سوکر کو دیکھنے کیلئے قطر آئیں تو صرف قطر ائیر لائن سے سفر کریں۔ اِس ذرہ نوازی کے بدلے میں اُن کے ہوٹل کے کرائے میں اور مستقبل کے سفر میں رعایت دی جائیگی ۔ قطر کے حکام نے کہا ہے کہ ساری دنیا میں سوکر ورلڈ کپ کی دھوم مچی ہوئی ہے جیسے کھیل نہیں میلہ لگا ہوا ہے۔ اور اِس پُر فضا ماحول سے آسٹریلیا ورلڈ کپ کے حکام جل کر رہ گئے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ جیسا کھیل ہوگا ویسے ہی اسٹیڈیم میں تماشہ بینوں کی تعداد۔ کرکٹ کے کسی میچ میں تماشہ بینوں کی تعداد صرف فائینل میں ایک لاکھ کے قریب ہوتی ہے اور یہ تعداد بھی پاکستان یا بھارت کی ٹیموں کی مرہون منت ہوتی ہیں۔لیکن سوکر کے میچ میں تماشہ بینوں کی تعداد کا دو لاکھ تک پہنچ جانا کوئی عجوبہ بات نہیں۔قطری حکام نے مزید کہا ہے کہ اُنہوں نے شائقین سوکر کیلئے پانچ اسٹیڈیم تعمیر کروائے ہیں تاکہ کھیل کا تسلسل قائم رہے اور لوگ دِل بھر کر دنیا کی مختلف ٹیموں کے مقابلے سے محفوظ ہوسکیں۔ایسا مقابلہ روز روز کا نہیں ہوتا بلکہ چار سال بعد آتا ہے۔ حکام نے کہا کہ قطر کی حکومت لوگوں کی رہائش کیلئے ہوٹل اور اپارٹمنٹ کمپلکس بھی تعمیر کروائے ہیں تاکہ اُن کی رہائش میں کوئی دشواری نہ ہو۔ادھر فائیفا کے حکام نے دعوی کیا ہے کہ سوکر دنیا کا مقبول ترین کھیل ہے ۔ یہ جہاں دنیا کے بڑے شہروں مثلا”لندن پیرس اور ماسکو میں کھیلا جاتا ہے وہاں اُس کے شائقین چھوٹے چھوٹے قصبہ اور گاؤں میں بھی شوق سے کھیلتے ہیں۔ سوکر کے کھیل سے بچوں کے نشو و نما میں کافی تقویت پہنچتی ہے اور وہ عملی زندگی میں متحرک چابکدست اور تیز و طرار ہو جاتے ہیں۔ فائیفا کے حکام نے کہا کہ فیملی کے ہر فرد کو سوکر بلا خوف وخطر کھیلنا چاہیے اور اِس مفروضے کو یکسر مسترد کرینا چاہئے کہ یہ کھیل صرف مینز کیلئے مخصوص ہے،سوکر کا ورلڈ کپ قطر میں 20 نومبر 2022 ء سے شروع ہورہا ہے۔