ماجد جرال
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب سوشل میڈیا کا آغاز ہوا تو لوگوں میں اس کو خوب پذیرائی ملی، ابتدائی دنوں میں سوشل میڈیا انتہائی معتبر انداز میں استعمال بھی کیا گیا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے استعمال میں نہ صرف غیر ذمہ داری کا اضافہ ہوتا گیا بلکہ کہ اس کو مختلف ہتھکنڈوں کی تکمیل کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگا۔ آج کی صورت حال آپ کے سامنے رکھنے کی ضرورت نہیں، ہم میں سے ہر کوئی جانتا ہے کہ کس طرح آج کل انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی سطح تک سوشل میڈیا کو کن مقاصد کےلئے استعمال کیا جانے لگا ہے۔ سوشل میڈیا نے لوگوں میں مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دے کے فیس بک کے بعد، ٹوئٹر سمیت متعدد سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم نے جنم لیا، موجودہ دور میں سوشل میڈیا نا صرف آپ کی تشہیری مہم میں کام آرہا ہے بلکہ اس جنریشن وار کا بھی ایک اہم ذریعہ بن چکا ہے۔سوشل میڈیا آج کی تاریخ تک ایک طاقتور ترین پلیٹ فارم بن چکا ہے، جس نے بڑے بڑے طاقتورں کو مار گرایا، بڑے بڑے مقاصد کے حصول کو یقینی بنایا، کسی کے مسائل پر کان دھرنے والی حکومتوں کو ناک کی لکیریں نکلوائیں اور اپنے ہی عوام کے سامنے جھوٹ بولنے والے عناصر کو بے نقاب کیا۔بلاشبہ سوشل میڈیا نے اپنے طور پر لوگوں کو آگاہی فراہم کرنے میں بے مثال کام کیا۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ سوشل میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ نہ استعمال کے حوالے سے حکومتوں کی سطح پر تو جو کچھ ہو سو ہو مگر انفرادی سطح پر بھی کچھ قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔مجھے اس موضوع پر بات کرنے کے لیے دو ایسے واقعات میں مجبور کیا جن کا میں تذکرہ یہاں پر اشارہ ہی کروں گا۔
پاکستان میں سوشل میڈیا اب سیاسی جماعتوں کا میدان جنگ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، اس میدان جنگ میں پروپیگنڈا کے وہ تیر چلائے جاتے ہیں کہ جس کی مثال نہ ملے۔ مگر اس پروپیگنڈا کے بعد ان تمام باتوں کو کچھ ملے یا نہ ملے ان کے کارکنان کو ایک دوسرے پر طنز کے تیر چلانے کا موقع ضرور ملتا ہے۔ ابتدا میں ان باتوں کو اتنا زیادہ سنجیدہ نہیں لیا جاتا تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ طنزیہ تبصرہ ایک دوسرے کے ساتھ ذاتی تعلقات خراب کرنے کا سبب بھی بننے لگے۔ ایک دن میں نے فیس بک پر اپنے ایک دوست کی ایسی ہی پوسٹ دیکھی جس میں وہ اس بات کا اظہار کر رہے تھے کہ کسی ایک جماعت کی مخالفت یا حمایت کے باعث ان کے بہت ہی قریبی تعلق کو نقصان پہنچا اور یہ تعلق اب اختتام پذیر ہوچکا ہے۔آپ تصور کریں کہ سوشل میڈیا کے استعمال میں بات غیر ذمہ داری سے بڑھ کر ذاتی مخاصمت تک آچکی ہے۔ مجھے خوف صرف یہ سوچ کر آتا ہے کہ غیر ذمہ داری سے بڑھ کر ذاتی مخاصمت تک آنے والا یہ معاملہ کہیں ذاتی دشمنی تک پہنچا دے۔ایک اور واقعہ جو میں نے اخبار میں پڑھا کے کس طرح لوگوں کی ذاتیات کو بھی منفی اور غلط معلومات کے ذریعے نشانہ بنایا جا رہا ہے، اگر اس طرح کی غلط معلومات کا ڈیٹا نکالا جائے تو نا جانے کتنے گھروں کو اب تک یہ ناسور اجاڑ چکے ہوں گے۔اس لئے ضروری ہو گیا ہے کہ اب سوشل میڈیا کے استعمال سے متعلق حکومتی سطح پر تو جو اقدامات ہوں سو ہوں مگر ہمیں انفرادی سطح پر بھی کچھ اقدامات اٹھانے چاہیے۔