طرز حکمرانی بدلنا ضروری ہے!!!

0
132
پیر مکرم الحق

حکمرانی کا طریقہ بدلنا وقت کی ضرورت بن گیا ہے۔اس کے بغیر کوئی نظام حکومت چلا نہیں سکتا۔حکمرانی کا اہم ترین عنصر عوام کا فلاح ہے۔اگر نظام حکومت میں اس بات کو ا ہمیت نہیں دی جاتی تو وہ نظام حکومت ظلم کا نظام بن جاتا ہے۔یہ بات طے شدہ ہے کہ بے انصافی اور معاشی ناہمواری ہی ہمارے معاشرتی ناسور کی جڑیں ہیں۔جب قصور وار آئینی دولت وعمارت کے زور پر آئینی سزا سے بچ جائے اور بے قصور کو سزا مل جائے تو یہ ایک واضع پیغام ہے کہ قانون طاقتور اور دولتمند کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔اس معاشرے میں غریبی قصور کی علامت بن جاتی ہے اور اسی سے معاشرے میں مجرمانہ روشن پیدا ہوتی ہے۔جرائم کی بنیاد دولت کے حصول کیلئے شارٹ کٹ راستہ ہی ہوتا ہے۔جب کم ازکم وقت میں دولت کمانی ہوتی ہے تو پھر قانون شکنی ضروری بن جاتی ہے۔پھر وہی آدمی جب غیر قانونی راستہ سے ڈھیر ساری دولت کما لیتا ہے تو وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ قانون کو خرید کر اسے اپنا کھلونا بنا دیتا ہے۔پھر وہ اپنے محلے حلقہ احباب اور خاندان کیلئے ایک مثال بن جاتا ہے جسے پر کوئی اپناتا ہے اسی طرح جرم پھلتا پھولتا ہے اور مجرموں کا حلقہ بڑھتا جاتا ہے۔معاشی ناہمواری کی بنیاد بھی بے انصافی ہوتی ہے۔جب حقدار کو اسکے حق سے محروم کردیا جاتا ہے تو وہ غربت اور بدحالی کے اندھیرے غار میں دھکیل دیا جاتا ہے۔حق تلفی کرنے والا مزید طاقتور اور مالدار ہوجاتا ہے۔اسباب تو بیان ہوگئے سدباب کیا ہے یہیں سے مشکلات شروع ہوتیں ہیں حکومتی نظام کی جڑیں کھوکھلی ہیں۔عدالتی نظام بے بس ہے، قانون نافذ کرنے والے ادارے نااہل اور بدعنوان ہوگئے تو پھر پھر اصلاح کیسے ممکن ہے؟جب حکومتی وزراء چینی اور آٹا مافیا کا روپ دھار لیں،عدالتیں اپنی تنخواہیں اور سہولتوںکو اہمیت دیں، مقدمات سالوں تک فائیلوں کی زینت بنتے رہیں ، لوگوں کو انصاف نہ ملے، قانون نافذ کرنے والے محافظ لیٹروں کا روپ دھارلیں تو پھر اصلاح کیسے ممکن ہے؟پھر ایک ہی تو پھر اصلاح کیسے ممکن عوامی انقلاب جب عوام اس حد تک بیزار ہوکر اب اس میں مزید انتظار کی گنجائش نہ رہے تو پھر وہ سڑکوں پر نکل آئیگی۔عرب اسپرنگ اور لاطینی ممالک کے کئی ممالک کے انقلاب کی ناکامی کے بعد ایک بات تو ثابت ہوگئی ہے کہ مخلص قیادت کے بغیر انقلاب کا آنا ایک اور دھوکا ہوجاتا ہے۔جس معاشرے میں اظہار رائے کی آزادی کو صلب کردیا جاتا ہے۔درمیانہ درجے کی قیادت کو پہنچنے نہیں دیا جاتا ہے۔طاقتور کے سامنے سچ بولنا ایک سنگین جرم بن جاتا ہے۔وہاں سے پرخلوص اور سچی قیادت کوچ کر جاتی ہے یا مشکل طور پر خاموش کر دی جاتی ہے۔موقع پرست چرب زباں اور بکائو مال قیادت کا روپ پھر کے سامنے آجاتے ہیں۔جس طرح سوشل میڈیا میں ٹرولنگ کا استعمال ہوتا ہے اس چھوٹی سطح پر قیادت چاہے کسی محلے کی ہو یا جماعت کی یا ادارے کی اس میں اب ٹرولرز پیدا ہوگئے ہیں۔جوکہ جھوٹ کو بنا سنوار کر بیچنے کہ کام میں مہارت رکھتے ہیں۔پاکستان کی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ اسکی ایٹمی قوت اسکی بڑی کمزوری بنتی جارہی ہے۔بین الاقوامی وڈیرے پاکستان کو اسکی ایٹمی قوت سے محروم کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور بدقسمتی سے ہمارے حکمران طبقہ کی ایک اچھے بھلے حصہ کو انہوں نے خرید لیا ہے۔جو اندرون خاندان سے اس مہم میں مددگار ہیں۔کمر توڑ مہنگائی اور معاشی بدحالی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔حکومتی مافیاہی اصل حکمران ہیں انکے سامنے سارے طاقتور حلقہ عدالتیں بھی بے بس ہیں۔سوشل میڈیا کے ذریعے مایوسی کو پھیلایا جارہا ہے۔چھوٹی مذہبی جماعتوں کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت طاقتور جماعت کے طور پر پیش کرکے پاکستان پر انتہا پسندی کی مہر پشت کی جارہی ہے۔تاکہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو غیر محفوظ ہونے کے تاثر کو بین الاقوامی سطح پر پھیلایا جاسکے۔
سپریم کورٹ کے ایک ایماندار اور نڈر جج کے گھر والوں کو ہراساں کرکے عدالتی نظام کی آزادی کو مشکوک بنا کے آج بین الاقوامی رینکنگ میں آخری چند ممالک میں شامل کرکے پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کرنا بھی اسکے ایٹمی اثاثوں سے محروم کرنے کی طرف ایک اور قدم ہے۔طاقتور حلقوں کی نادانی اور کمزور حکومت جس پر عوام کی بیزاری جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے۔جب تک فوری طور پر تمام سیاسی اور مذہبی جمائتیں اور افواج پاکستان اکٹھے ہو کر ایک حکمت عملی تشکیل نہیں دینگے تو پاکستان کی سلامتی کو خطرہ ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here