مالیاتی قانون افراد یا کاروباری فریقین کے مابین مالیات کے لین دین کے بارے میں اصول و ضوابط کا مجموعہ ہے ۔ جو فریقین کے مابین طے کیے گئے حقوق و فرائض کی قانونی دستاویز بنانے کے طریقیبتاتا ہے ۔ دونوں فریقوں کے درمیان رقم کی واپسی ، طے کی گئی شرح منافع اور شرائط کی قانونی دستاویز اسی قانون کے تحت بنتی ہے ۔ اس پر دونوں فریقین گواہان کی موجودگی میں اپنے دستخط کرتے ہیں ۔ اس کی سرٹیفکیشن کے لئے ایک رسمی جملہ بھی لکھا جاتا ہے کہ ” تحریر لکھ کر گواہان کی موجودگی میں دستخط ثبت کر دیے ہیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے ” اسی طرح کسی ملک کا کرنسی نوٹ اس پر درج قیمت کا عہد بھی وہ ملک اپنی گارنٹی کے ساتھ کرتا ہے ۔ کسی بھی ملک کی کرنسی کی قدر اس کی مضبوط معیشت سے جڑی ہوتی ہے جو عالمی تجارت کیلئے ضروری ہوتا ہے ۔ پرانے وقتوں میں عالمی تجارت کا یہ لین دین سونے چاندی سے جڑا ہوا تھا ۔ 12 ویں صدی میں چین کے بادشاہ سونگ اور سولہویں صدی میں میساچوسٹس امریکہ کے تاجروں نے کاغذی کرنسی متعارف کروائی ۔ اب عالمی تجارت ڈالرز میں ہوتی ہے اور امریکہ ڈالر کی قدر پر کبھی کمپرومائز نہیں کرتا ، چاہے اس کے لیے جنگ ہی کیوں نہ کرنی پڑے ۔ 1960 تک کرنسی نوٹوں کی مالیاتی گارنٹی کے طور پر ملک کا فیڈرل ریزرو بینک اس کی مالیت کے برابر 33 فیصد سونا رکھتا تھا ۔ اب کرنسی نوٹ جاری کرنے والی حکومت اس کی مالیت کی ضمانت دیتی ہے ۔ ہر ملک اپنے مختلف نوٹوں پر اپنے مختلف قومی ہیروز کی تصاویر چھاپنے کے علاوہ جعل سازی سے بچنے کے لیے سکیورٹی فیچرز بھی شامل کرتا ہے ۔ اس پر گارنٹی اور ایک عہد نامہ بھی تحریر ہوتا ہے ۔ اگر آپ پاکستانی روپے پر دیکھیں تو قائداعظم کی تصویر کے علاوہ لکھا ہوتا ہے جاری کردہ ” بینک دولت پاکستان ” ، روپے کی مالیت ، ” حامل ہذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا ” ، ” حکومت پاکستان کی گارنٹی سے جاری ہوا ” اور اس کے علاوہ دستخط گورنر بینک دولت پاکستان ثبت ہوتے ہیں ۔ حکومت کے پرائز بانڈز ، قومی بچت سرٹیفکیٹس اور دفاعی بچت سرٹیفکیٹس وغیرہ بھی تقریبا انہیں اصولوں پر جاری ہوتے ہیں ۔ پاکستان میں ہفتہ رواں میں اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 179 روپے ہے ۔ اسی ہفتے عمران خان حکومت نے اپنا مالیاتی خسارہ کم کرنے کے لیے ایک بلین ڈالرز کے سکوک بانڈز (Sukuk Bonds) تاریخ کی اونچی ترین شرح منافع 7.95 پر جاری کیے ہیں ۔ حکومت مالی خسارہ کم کرنے اور روپے کی قدر مستحکم کرنے کی کوششیں کر رہی ہے دوسری طرف کرپٹو کرنسی اور ڈیجیٹل کرنسی Cryptocurrency & Digital currency کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف ایف آئی اے پکڑ دھکڑ کر رہی ہے ۔ جس پر پاکستان میں ” کرپٹو کرنسی اور ڈیجیٹل کرنسی کیا ہے ؟ ” کی بحث چل پڑی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ رائے عامہ ہموار کرنے والے خود اس کی الف ب سے بھی واقف نہیں اور سب آئیں بائیں شائیں چل رہا ہے ۔ ایسے میں ڈیجیٹل کرنسی کی مارکیٹنگ کرنے والے 38 سالہ چیئرمین ڈیجیٹل موومنٹ پاکستان وقار زکا ایسے ٹی وی پروگراموں میں سلور سٹار کے طور پر سامنے آئے ہیں ۔ جو ڈیجیٹل کرنسی کو پاکستان میں مقبول کروانے کے لیے نہ صرف ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں بلکہ حکومت پر دبا بھی ڈال رہے ہیں ۔ میں نے بھی اس اچانک نازل ہونے والی کرپٹو کرنسی یا ڈیجیٹل کرنسی کو سمجھنے کیلئے پاکستانی امریکن نوجوان ایکٹویسٹ ، سوشل ورکر اور کمپیوٹر کی جدید دنیا کے اسرار و رموز سمجھنے والے دوست وسیم چودھری سے تین طویل نشستیں کیں جنہیں بڑی امریکی کمپنیوں گوگل ، ایپل اور یاہو وغیرہ کے ساتھ کام کرنے کا وسیع تجربہ ہے ۔ انہوں نے مجھے کرنسی نوٹ سے لے کر کرپٹو کرنسی تک کی سب جمع تفریق عام فہم انداز میں کچھ اس طرح سمجھائی ۔ پانچ دھائی قبل شروع ہونے والی کمپیوٹر کی دنیا جدت کی منازل طے کرتی اب وورچول ورلڈ اور میٹا ورس metaverse & virtual worlds میں تبدیل ہو چکی ہے ۔ اب پردیس میں رہنے والے مہینوں گھر والوں کے خط کا انتظار نہیں کرتے ۔ ہالی ووڈ والے صحرا کے منظر کی عکس بندی کے لیے صحراں کی خاک نہیں چھانتے بلکہ کمپیوٹر میں دستیاب مطلوبہ مناظر تکنیکی مہارت کے ساتھ سٹوڈیو میں اداکاروں کے ساتھ عکس بند ہوجاتے ہیں جسے ” کم خرچ اور بالا نشین ” کہیں تو غلط نہ ہو گا اور یہی معاملہ کرپٹو کرنسی کے ساتھ ہے ۔ جو ایک پرامیسری نوٹ ، کرنسی نوٹ ، مالیاتی حصص ، بونڈز اور وورچول ورلڈ کا امتزاج ہے ۔ جس کا مجسم وجود نہیں ہے لیکن اس میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیاں اس کی قدر کو مستحکم کرتی ہیں ۔ مبینہ طور پر 2009 میں جاپان میں پہلی کرپٹو کرنسی بٹ کوائن Bitcoin لانچ ہوئی ۔ کرپٹو کرنسی بٹ کوائن کی قیمت تین سال قبل تک صرف تین ہزار ڈالرز تھی جو امریکی الیکٹرانک کار بنانے والی کمپنی ٹیسلا ( Tesla ) کے ڈیڑھ بلین ڈالرز کے بٹ کوائن خریدنے اور اپنا کاروباری لین دین اس میں کرنے سے ایک دم اس کی قیمت 51 ہزار ڈالرز پر پہنچ گئی ۔ جیسا کے نام سے ظاہر ہے کہ یہ ڈیجیٹل کرنسی ہے اس لئے اس کا کوئی مجسم وجود نہیں ہے اور اس کی منتقلی بھی کمپیوٹر کے ذریعے ہوتی ہے ۔ جس میں کسی حکومت یا بینک کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔ خدشہ ہے کہ اس طرح سرمائے کی آف دی ریکارڈ ترسیل غلط کاموں بلخصوص دہشتگردی کے لئے بھی ہوسکتی ہے ۔ ستمبر گیارہ کے بعد امریکی سیکیورٹی اداروں نے دہشت گردی کی وارداتوں کے لیے سرمائے کی منتقلی کے راستوں کی کڑی نگرانی سے بہت سی وارداتوں کا سراغ لگایا تھا ۔ لیکن یہ دلچسپ بات ہے کہ نہ صرف پوری دنیا بلکہ امریکہ میں بھی گردش کرتی کرپٹو کرنسی سے امریکی مالیاتی و حساس اداروں کو کوئی مسئلہ نہیں ہے اور اسے امریکی حکومت کی خاموش حمایت حاصل ہے ۔ امریکہ میں اس کا کھلے عام لین دین ہو رہا ہے اور عوامی مقامات پر اے ٹی ایم کی طرز پر بٹ کوائن کی خرید و فروخت کے لئے مشینیں بھی لگی ہوئی ہیں ۔ دنیا کے گیارہ ممالک اس پر پہلے ہی پابندی عائد کر چکے ہیں ۔ اس کا سب سے زیادہ لین دین بھارت اور ویتنام کے بعد پاکستان میں ہو رہا ہے ۔ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستانیوں کے پاس 20 بلین ڈالرز کی کرپٹو کرنسی ہے ۔ دو ماہ قبل ایف آئی اے سائبر کرائمز نے کرپٹو کرنسی میں 18 ارب روپے گنوانے والے پاکستانیوں کی شکایت پر مقدمات بھی درج کیے ہیں ۔ جس کے بعد سٹیٹ بینک آف پاکستان نے اس پر مکمل پابندی لگا دی ہے ۔ وقار زکا نے پاکستان میں کرپٹو کرنسی کو مقبول عام بنانے اور حکومتی پابندیوں کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن بھی دائر کی ہے ۔ جس پر سٹیٹ بینک آف پاکستان نے گزشتہ ہفتے 28 صفحات کا جواب داخل کیا ہے ۔ آئندہ سماعت اپریل میں ہوگی ۔ وسیم چودھری نے گفتگو کو سمیٹتے ہوئے کہا کے پاکستانی ابھی ڈیجیٹل کرنسی میں لین دین نہ کریں ۔ کیونکہ اگر آپ اس کاروبار کے اصول و ضوابط نہیں سمجھتے تو آپ کو مالی نقصان پہنچنے کا قوی امکان ہے ۔ حکومت پاکستان ڈیجیٹل ترقی کی اس دوڑ میں شامل ہونے کے لیے سٹیٹ بینک کے ماتحت ایل سلواڈور کی طرح اس کاروبار کو قانونی شکل دے ۔ اس میں تاخیر دونوں صورتوں میں نقصان دہ ہو گی ، کیونکہ غیر قانونی طور پر یہ کاروبار پھر بھی جاری رہے گا ۔ وسیم چودھری فروری میں نیویارک میں ڈیجیٹل کرنسی میں سرمایہ کاری کے حوالے سے ایک سیمینار بھی کریں گے ۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ پاکستان جس کے سر پر پہلے ہی ورلڈ بینک ، آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹک رہی ہے ۔ ملک میں مالی بے راہروی یا مالی بے ضابطگیوں کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ حکومت بروقت قانونی مالی حکمت عملی اپنائے اور بجائے اس کے کہ ڈبل شاہ اپنی اپنی گیم کرتے پھریں معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیں ۔ پاکستان پہلے ہی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے اور دشمن مختلف طریقوں سے اس کے مالی اور معاشی نظام کو تباہ کرنے کے درپے ہے ۔ ماضی میں بھی دشمنوں نے پاکستان کا مالیاتی نظام اور مالیاتی اداروں کو ” خود ساختہ نقصان ” میں زمین بوس کیا تھا اور یہ کام پھر بھی ہو سکتا ہے ۔ کیونکہ پاکستان کے لیے یہ جنگ کبھی ختم نہیں ہوئی ۔ پاکستان کے دشمنوں کو ہر وقت بہت سے وقار زکا میسر رہتے ہیں ۔
محمد حسین پاکستان نیوز نیویارک 31 جنوری 2022