سیاسی، معاشی، معاشرتی، لوڈشیڈنگ و بارش کے سبب افتاد، پریشانیوں، چپقلشیوں اور نفرت انگیزی کے گرداب میں گھرے وطن عزیز کے حوالے سے خوشی اور فخر کی خبروں کا آنا شاذ و نادر ہی سننے کو ملتا ہے۔ الحمد للہ کہ گزشتہ اتوار کو کامن ویلتھ گیمز کے حوالے سے قوم کو مسرت و افتخار کا ایسا ہی ایک موقع میسر ہوا جب پاکستان کے ارشد ندیم نے جیولین تھرو فائنل میں 90.18 میٹر لمبی تھرو کر کے نہ صرف گولڈ میڈل حاصل کیا بلکہ 1998 میں جنوبی افریقی ایتھلیٹ کا سب سے طویل فاصلے کی تھرو کا ریکارڈ بھی توڑ دیا۔ مبصرین اور ماہرین کے مطابق کامن ویلتھ گیمز میں ارشد ندیم کی تھرو تاریخ بن گئی کہ اس سے قبل کوئی بھی ایتھلیٹ 90 میٹر کو نہ چُھو سکا تھا۔ ارشد ندیم کی شاندار کامیابی نے قوم میں خوشی کی وہ لہر دوڑا دی جو کسی بھی قوم کا سرمایۂ افتخار ہوتی ہے۔ ارشد ندیم کے میاں چنوں میں واقع چھوٹے سے گائوں سے لے کر پاکستان کا ہر بڑا چھوٹا شہر، گائوں، قصبہ اور محلہ مسرت، شادمانی اور افتخار سے ڈوبا ہوا تھا بلکہ کارزار دنیا میں جہاں جہاں بھی پاکستانی موجود تھے مسرت اور تشکر کے اُمنڈتے جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔ برمنگھم میں جب سبز ہلالی پرچم قومی ترانے کے ساتھ بلند ہوا تو کوئی پاکستانی ایسا نہ تھا جس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو نہ ہوں۔ درحقیقت یوم آزادی پر یہ قوم کیلئے عظیم تحفہ ہے۔
اس زبردست کامیابی پر سب سے پہلے پاک فوج کی طرف سے مبارکباد آئی، صدر پاکستان و سیاسی اشرافیہ، اسپورٹس سے وابستہ افراد و اداروں غرض ہر شعبۂ حیات سے مبارکباد و شاباش کے پیغامات آئے۔ پاکستان اسپورٹس بورڈ نے پچاس لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا، دیگر اداروں (بشمول پشاور زلمی) نے بھی لاکھوں کے اعلانات کئے لیکن کیا یہ اعلانات عملی شکل اختیار کریں گے؟ ایک بڑا سوال ہے، ماضی کے حوالے سے اس طرح کے اعلانات محض اعلانات ہی رہے ہیں۔ فیصل آباد کے ایک نوجوان محمد آصف نے دو بار اسنوکر کا بین الاقوامی ٹائٹل جیتا تو اس وقت کے صاحبان اقتدار نے دس لاکھ کا اعلان کیا تھا اب تک وہ غریب اپنے انعام کا انتظار کر رہا ہے۔ حالیہ کامن ویلتھ گیمز میں ارشد ندیم کے علاوہ نوح دستگیر بٹ نے ریسلنگ کے فائنل میں بھارتی پہلوان کو ہرا کر گولڈ میڈل حاصل کیا جبکہ اب تک چھ ایتھلیٹ بالترتیب سلور اور برانز میڈل بھی حاصل کر چکے ہیں۔ حیرت اور دُکھ کی بات یہ ہے کہ ان ٹیلنٹس کو حکومت و اسپورٹس اداروں کی جانب سے نہ ٹریننگ کی سہولتیں میسر کی جاتی ہیں اور نہ ہی ان کی معاشی و پیشہ ورانہ ضروریات پر توجہ دی جاتی ہے۔ ارشد ندیم نے زخمی کہنی کے ساتھ اور جنوبی افریقہ میں محض ڈیڑھ ماہ کی تربیت کے بعد ریکارڈ کارنامہ انجام دیا اور اس فتح میں ورلڈ چیمپئن کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ نوح بٹ کے مطابق اس کی تیاری اس کے والد نے کرائی، متعلقہ ایسوسی ایشن نے کوئی توجہ نہ دی۔ ان دو ایتھلیٹس کی ہی بات نہیں یہاں تو جتنے بھی پاکستانی ایتھلیٹس اور کھلاڑی ہیں ان کیساتھ حکومتی اور اسپورٹس مقتدرین کا یہی رویہ ہے۔ حقدار حق کو ترسیں، ناحق پر عنائتیں برسیں کے مصداق دوروں پر جانے والے آفیشل اپنے خاندانوں سمیت سرکاری خرچ پر گلچھرے اُڑاتے ہیں اور کھلاڑیوں کو ان کے غذا، صحت اورتربیت کا حق بھی نہیں ملتا، نتیجہ یہ کہ ہماری ہاکی ٹیم ساتویں نمبر پر ہے اور ٹیم گیمز میں موجودہ ٹورنامنٹ میں کوئی کامیابی نہیں ملی ہے۔ دوسری بات یہ کہ میرٹ، اہلیت کو قطعی نظر انداز کر کے من چاہے اور پیا چاہے منتخب کئے جاتے ہیں۔
نا اہلیت کا سکہ تو پاکستان کے ہر شعبے میں چل رہاہے۔ حکومت، ریاست، معیشت، معاشرت غرض کوئی شعبہ ایسا نہیں جو اس سے مبّرا ہو۔ ملازمتوں سے لے کر اقتدار کی راہداریوں تک مفاد، قرابت، موروثیت کی بناء پر ہر کھیل کھیلا جاتا ہے اور اگر کوئی اس گورکھ دھندے سے نکل کر ملک اور عوام کی بہتری و خوشحالی کیلئے آگے بڑھنا چاہے تو اسے اسٹیٹس کو برداشت نہیں کرتا، کسی نہ کسی طریقے سے اس کا پتہ صاف کر دیا جاتا ہے۔ وطن عزیز کی پوری تاریخ ایسے حقائق و واقعات سے بھری پڑی ہے۔ موجودہ صورتحال کو ہی لے لیں۔ عدم اعتماد کے نام پر رجیم چینج کا جو کھیل چار ماہ قبل کھیلا گیا اس کے اثرات اور مضمرات ہر شعبۂ زندگی سے لے کر کاروبار، انتظامی امور، ابلاغ، امور مملکت و ریاست سب میں ہی انتشار، افتراق اور غیر یقینی کی انتہاء ہیں مغلظات، فحش گوئی، الزامات، طعن و تشنیع اور حساس ترین اداروں کے بارے میں غلط بیانی کے شور و غوغا میں ساری قوم یوم آزادی کی خوشیوں کو بھول کر ان برائیوں کے حصار میں گھری نظر آتی ہے۔ درآمدی حکومت جو پنجاب میں شکست کھانے کے بعد اب محض وفاق تک محدود دو ووٹوں کی اکثریت پر کانپتی ٹانگوں پر لڑکھڑا رہی ہے، عمران کیخلاف سارے منافرتی حربوں کو آزمانے پر اُتر آئی ہے، نا اہلی کی دھمکیوں، سپریم کورٹ میں ریفرنس، ایف آئی اے کے ذریعے انکوائریز کے توسط سے اپنا شیطانی کھیل کھیلنے کی کوششوں کیساتھ اب چینلز کی بندش پر بھی اُتر آئی ہے۔ اے آر وائی اور عمران کے دیگر سپورٹنگ چینلز کو کیبل سے بند کرنے کا منفی عمل کسی بھی طرح درست نہیں، خصوصاً چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے واضح حکم کے باوجود ایسا کرنا توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔ عمران خان شیر کی طرح عوام کی بھرپور سپورٹ سے اپنے عزم و مؤقف پر ڈٹا ہوا ہے۔
اب عمران خان کیخلاف ایک نئی کہانی مائنس ون کے حوالے سے سامنے آئی ہے اسد عمر اور مراد سعید نے بھی اس انکشاف کا اظہار کیا ہے کہ فیصلہ سازوں نے مائنس ون کی تجویز دی ہے لیکن ان کی جانب سے واضح کر دیا گیا کہ پی ٹی آئی عمران خان ہے اور عمران خان پی ٹی آئی ہے، دوسرا کوئی نہیں۔ ہماری عرض یہ ہے کہ عوام کی مرضی کے بر خلاف اور منفی ہتھکنڈوں سے کبھی بھی کوئی اقتدار برقرار نہیں رہ سکتا۔ نا اہلی، پابندیوں اور سزائوں کی حرکات سے نہ مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں اور نہ ہی اقتدار کو طوالت ملتی ہے۔ نا اہلی کے غیر جمہوری آرٹیکل کے باعث تین وزرائے اعظم نا اہل ہوئے لیکن کیا ان کی یا ان کی پارٹی میں کوئی فرق آیا ہے۔ عمران خان کی غیر معمولی مقبولیت ایک تاریخی حقیقت ہے اور اس کیخلاف کوئی بھی منفی یا غیر جمہوری اقدام نہ صرف شدید عوامی رد عمل کا سبب بن سکتا ہے بلکہ ملک کے عدم استحکام کو بھی دعوت دے سکتا ہے۔
پاکستان کی آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر کیا یہ کہنا مناسب نہیں ہوگا کہ وطن عزیز کی عظمت، سلامتی و استحکام کی خاطر تمام قوتیں اور ادارے محاذ آرائی سے احتراض کریں اور مفاہمت و مذاکرات کی وہ راہ اپنائیں جو نہ صرف نا اہلی و فسطائیت کی روش کے خاتمے کا ذریعے بنے بلکہ جمہوریت کے تسلسل کو بھی مثبت یقینی اور عوامی رائے کا آئینہ بنا سکے۔ یقین کریں یہ اقدام 75 ویں یوم آزادی کا حسین ترین تحفہ ہوگا۔ ویسے بھی ارشد ندیم اور نوح بٹ قوم کو دو تحائف تو گولڈ میڈلز کی شکل میں دے ہی چکے ہیں۔ علامہ اقبال کہہ گئے ہیں!
نہ ہو اقبال نا امیدا پنی کشت و یراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
ہمارا بھی یقین یہی ہے، صرف شیاطین سے نجات کی ضرورت ہے۔
٭٭٭