آن لائن ہراسانی…!!!

0
115

ہمارے ہاں قوانین کی کمی مسئلہ نہیں بلکہ قوانین پر عمل نہ ہونا مسئلہ ہے۔ جو بظاہر ممکن نہیں، کیونکہ ہمارا قانونی نظام رکھوالوں، قانون بنانے والوں کی جانب سے اس قدر کمزور کردیا گیا ہے کہ اکثر مقدمات خارج کردیے جاتے ہیں۔ سال 2021 کے دوران ایک محتاط اندازے کے مطابق 5900 کے قریب مقدمات قانونی اسقام کی وجہ سے خارج ہوئے۔ اس لیے اس مسئلے کا فوری اور آسان حل یہی ہے کہ علمائے اکرام میدان عمل میں اتریں، روایتی تقاریر چھوڑیں، سماجیات کو موضوع بیاں بنائیں۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب تک لوگوں کے دل کا یقین نہیں بدلے گا، جب تک انہیں اس بات کا یقین نہیں ہوگا کہ آج میں جو بو رہا ہوں کل مجھے یا میری اولاد کو کاٹنا پڑے گا، اس وقت تک ہمارے ہاں حقوق نسواں کے حوالے حالت دگرگوں رہے گی۔ ہم یہی سمجھتے رہیں گے ہر وہ لڑکی جو گھر سے کام کی غرض سے باہر نکلتی ہے وہ بری ہے۔ ہم اسے بیکری کے شوکیس میں رکھا ہوا رنگین کیک ہی سمجھتے رہیں گے۔ ہماری ہوس پرستی ہمیں یہ سوچنے ہی نہیں دے گی کہ ہوسکتا ہے یہ لڑکی اپنے دل کے مریض باپ کے علاج کیلیے ملازمت کررہی ہے، ہوسکتا ہے اس کا بھائی انہیں بے سہارا چھوڑ کر نشے کا عادی ہوچکا ہو۔ ہم ہرگز یہ نہیں سوچیں گے کہ ہمارے آفس میں کام کرنے والی آنٹی ایک ایسی مجبور خاتون ہیں جنہیں شوہر دوسری شادی کی غرض سے چھوڑ چکا ہے اور بچوں کی فیس، کپڑے اور دیگر اخراجات پورے کرنے کیلیے وہ گھر کی دہلیز چھوڑنے پر مجبور ہیں۔آج ہم اخلاقی طور پر اس قدر گر چکے ہیں کہ کسی بھی لڑکی، آنٹی کو برا سمجھتے ہوئے، شکار سمجھتے ہوئے ہمارے ذہن میں یہ خیال ہی نہیں آتا کہ یہ مجبور لڑکیاں ہیں، یہ بیچاری گھر کی ضروریات، ماں باپ، بہن بھائی، شوہر اور بچوں کی خوشی کی خاطر دہری مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو کون عورت یہ چاہے گی کہ پورا دن دفتر میں مغز ماری بھی کرے اور پھر گھر کے کام کاج بھی نمٹائے، گویا ڈبل نوکری۔انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اب وقت کی ضرورت ہے۔ معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت عام شہری کی جانب سے اٹھائے گئے سوال کیا اتنے بے معنی ہیں؟ سوشل میڈیا آنے کے بعد پاکستان میں بھی اداروں کی کارکردگی پر سوال اٹھانا آسان ہوگیا ہے۔ انٹرنیٹ بنیادی ضرورت بن گیا ہے۔ دنیا سمٹ کر انسان کی مٹھی میں ہے۔ کیسی کیسی نامور شخصیات جن سے ملنا کبھی خواب ہوا کرتا تھا، اب سوشل میڈیا کے ذریعے روزانہ ہماری مہمان بنی ہوتی ہیں۔ پاکستان میں اس وقت تقریبا 83 لاکھ افراد انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں اور سوشل میڈیا تک رسائی 73 لاکھ لوگوں کو ہے، جن میں 22 فیصد خواتین جبکہ 78 فیصد مرد شامل ہیں۔ صنفی برابری کے حوالے سے پاکستان اس وقت بھی بین الاقوامی سطح پر بہت پیچھے ہے اور اس کی واضح دلیل سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی تعداد ہے۔ بہت سی وجوہ میں سے ایک بہت بڑی وجہ جو خواتین کو سوشل میڈیا، خصوصا فیس بک سے دور رکھتی ہے، اسے بے پردگی سے جوڑا جاتا ہے۔ یعنی ایسا ماننے والے ہیں کہ سوشل میڈیا پر آنے والی خواتین اپنی ذاتی زندگی اور معلومات کو عام کردیتی ہیں۔ دوسری بہت اہم وجہ آن لائن ہراسانی ہے۔ پاکستان میں گزرے سال سے اب تک آن لائن ہراسانی نے نامور خواتین کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا، حکومت پاکستان کی جانب سے بدلتے تقاضوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے پیکا کا قانون متعارف کروایا گیا۔ یہ قانون بالخصوص آن لائن ہراسانی کے مسائل و مقدمات سے نمٹنے کیلیے بنایا گیا تھا مگر خواتین کی جانب سے ہراسانی کی بڑھتی شکایات اور ایف آئی اے کی خاموشی نے تب ذہن کو مزید الجھا دیا جب ایک خاتون صحافی کی جانب سے ان کی تصاویر کو ان کی مرضی کے بنا استعمال کرنے کی درخواست دینے کے باوجود ایف آئی اے نے کچھ نہ کیا۔ چھ ماہ گزرنے کے بعد ایف ائی اے سے اسی درخواست اور پیکا کے قانون کے تحت موصول ہونے والی تمام درخواستوں اور ان پر ہونے والی کارروائی کی تفصیل، معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت مانگی گئی۔ ایف ائی اے تب بھی آٹھ ماہ مسلسل خاموش رہا اور پاکستان انفارمیشن کمیشن کے بار بار بلانے پر بھی کوئی جواب نہ دے سکا۔ یہ مجرمانہ خاموشی آج بھی قائم ہے۔ ہراسانی کی ایسی ہی بہت سی درخواستیں آج بھی ایف آئی اے کے دفتر میں فائلوں میں بند پڑی اپنی بے بسی کا ماتم منا رہی ہیں اور درخواست گزار مجرم نہ ہوتے ہوئے بھی معاشرتی رویوں کے نشتر سہہ رہی ہیں۔ پاکستان انفارمیشن کمیشن نے ایف آئی اے کو حکم دیا ہے کہ وہ تمام معلومات اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرے تاکہ عوام کو پتہ چل سکے ان کی درج کرائی گئی درخواستوں پر کیا کام ہوا، کیا فیصلہ ہوا اور کون مجرم پکڑا گیا؟ سوشل میڈیا صارفین اس ہراسانی کو ہر گزرتے دن کے ساتھ سہہ رہے ہیں مگر اب سوچ میں پڑ چکے کہ اپنی حفاظت کو یقینی بنانے کیلیے کون سا در کھٹکھٹائیں، کیونکہ ایف آئی اے تو سو رہا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here