محترم قارئین! اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کو اللہ پاک جل شانہ نے قوت حافظ بھی مثالی عطا فرمائی تھی۔ تکمیل جواب کے لئے جوابات فقہ کی تلاشی میں جو لوگ تھک جاتے تو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کرتے تو اسی وقت آپ فرما دیتے کہ ردالمختار جلا فلاں کے فلاں صفحہ پر فلاں سطر میں یہ عبادت ہے۔ یہ عالمگیری میں فلاں جلاو صفحہ وسطر پر یہ الفاظ موجود ہیں۔ ہندیہ میں، خیریہ میں مبسوط میں الغرض ایک ایک کتاب فقہ کی اصل عبارت مع صفحہ وسطر بتا دیتے۔ اور جب کتابوں میں دیکھا جاتا تو من وعن ویسے ہی ہوتا جیسا بتایا جاتا۔ اس کیفیت کو ہم زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتے ہیں کہ خداداد قوت حافظہ سے تیرہ سو سال کی کتابیں حفظ تھیں۔ جناب سید ایوب علی رضوی رحمتہ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ ایک روز اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ بعض ناواقف حضرات میرے نام کے آگے حافظ لکھ دیا کرتے ہیں۔ حالانکہ میں اس لقب کا اہل نہیں ہوں۔ لہٰذا آپ نے اسی روز سے دور شروع کردیا۔ جس کا وقت غالباً عشاء کا وضو فرمانے سے جماعت قائم ہونے تک مخصوص تھا۔ روزانہ ایک پارہ یاد فرمالیا کرتے تھے یہاں تک کہ تیسویں روز تیسواں پارہ فرما لیا۔ ایک موقع پر فرمایا کہ میں نے قرآن پاک بالترتیب بکوشش یاد کرلیا اور یہ اس لئے کہ بندگان خدا کا کہنا غلط ثابت نہ ہو۔ تاکہ میں انکے لکھے کے مطابق ہو جائوں آپ رضی اللہ عنہ نے ناظرہ قرآن پاک پڑھنے کی سعادت تقریباً چار سال کی ننھی سی عمر میں حاصل کرلی تھی۔ اور چھ سال کی عمر میں ربیع الاول شریف کے مہینہ میں میلاد النبیۖ کے مقدس میں موضوع پر ایک عظیم مجمع میں مدلل بیان فرمایا(سبحان اللہ)
آپ رضی اللہ عنہ ایک سراپا عشق کا عظیم نمونہ تھے آپ کا نعتیہ کلام ”حدائق بخشش” اس امر کا شاہد ہے آپ کی نوک قلم بلکہ گہرائی قلب سے نکلا ہوا ہر مصرعہ آپ کی سرور عالمۖ سے محبت وعقیدت کی شہادت دیتا ہے۔ آپ نے کبھی کسی دنیاوی تاجدار کی تعریف کیلئے قصیدہ نہیں لکھا تھا اس لئے کہ آپ نے حضور تاجدار رسالت ۖ کی اطاعت وغلامی کو دل وجان سے قبول کرلیا تھا۔ اس کا اظہار آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک شعر میں اس طرح کیا ہے۔ انہیں جانا انہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام۔للہ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا! چنانچہ ایک مرتبہ ریاست نانپارہ ضلع بہرائج یو۔پی کے نواب کی مدح میں شعراء نے قصائد لکھے۔ کچھ لوگوں نے آپ سے بھی گزارش کی کہ حضرت آپ بھی نواب صاحب کی مدح میں کوئی قصیدہ لکھ دیں۔ آپ نے اس کے جواب میں ایک نعت شریف لکھ دی۔ جس کا مطلع یہ ہے۔
وہ کمال حسن حضور ہے کہ گمان نقص جہاں نہیں۔ یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں اور مقطع میں نانپارہ کی بندش کتنے لطیف اشارہ میں ادا کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ
کروں مدح اہل دول رضا پڑے اس بلا میں میری بلا۔ میں گداہوں اپنے کریم کا میرا دین پارہ ناں نہیں فرماتے ہیں کہ میں اہل ثروت کی مدح سرائی کیوں کروں۔ میں تو اپنے کریم اور سرور عالمۖ کے در کا فقیر ہوں۔ میرا دین نان کا پارہ روٹی کا ٹکڑا نہیں ہے۔ یعنی میں دنیا کے تاجداروں کے ہاتھ بکنے والا نہیں ہوں۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی میرے دل کے دو ٹکڑے کردے تو ایک پر لاالہ الا اللہ اور دوسرے پر محمد رسول اللہۖ لکھا ہوا پائے گا۔ مشائخ زمانہ کی نظروں میں آپ واقعی فناخی الرسول تھے۔ اکثر فراق میں غمگین رہتے اور سرد آہیں بھرتے رہتے جب پیشہ ور گستاخوں کی گستاخانہ عبارت کو دیکھتے تو آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگ جاتی اور پیارے مصطفیٰ ۖ کی حمایت میں گستاخوں کا سختی سے رد رکتے تاکہ وہ جھنجھلا کر اعلیٰ حضرت کو برا کہنا اور لکھنا شروع کردیں۔آپ اکثر اس پر فخر کیا کرتے کہ باری تعالیٰ نے اس دور میں مجھے رسالت ماب الصلواة والسلام کی ناموس کیلئے ڈھال بنایا ہے طریق استعمال یہ ہے کہ بدگویوں اور گستاخیوں کا سختی سے اور تیز کلامی سے رد کرتا ہوں، اس طرح مجھے وہ برُا بھلا کہنے میں مصروف ہوجائیں۔ اس وقت تک کے لئے آقائے دو جہاں ۖ کی شان میں گستاخی کرنے سے بچے رہیں گے۔ اسی لئے آپ بارگاہ رسالت مابۖ میں عرض گزار ہیں کروں تیرے نام پہ جاں فدا، نہ بس ایک جاں دو جہاں فدا۔ دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا، کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں غرباء کو کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے تھے۔ ہمیشہ غریبوں کی امداد کرتے رہتے، بلکہ آخری وقت بھی اعزہ واقارب کو وصیت کی کہ غرباء کا خاص خیال رکھنا۔ ان کو خاطر داری سے اچھے اچھے اور لذیذ کھانے اپنے گھر سے کھلایا کرنا اور کسی غریب کو مطلق نہ جھڑکنا آپ اکثر تصنیف وتالیف میں لگے رہتے۔ نماز ساری عمر باجماعت ادا کی۔ آپ کی خوراک بہت کم تھی اور روزانہ ڈیڑھ دو گھنٹہ سے زیادہ نہ سوتے سوتے وقت ہاتھ کے انگوٹھے کو شہادت کی انگلی پر رکھ لیتے تاکہ انگلیوں سے لفظ اللہ بن جائے آپ پائوں پھیلا کر کبھی نہ سوتے۔
٭٭٭٭٭
- Article
- مفسر قرآن حضرت مولانا مفتی لیاقت علی خطیب مرکزی سنی رضوی جامع مسجد جرسی سٹی، نیو جرسی یو ایس اے