اللہ سبحان و تعالیٰ، نے یہ دنیا تخلیق کی ہے ،انسان جانور ،چرند ،پرند ،درخت ،دریا، سمندر، خشکی ،پہاڑ ،صحرا ،کیڑے مکوڑے، سبزہ پھل، پھول، کھیت کھلیان ،سبزی ،اناج، فصلیں ان سب کا کچھ نہ کچھ مصرف ہے، کوئی مقصد ہے اقبال فرماتے ہیں!
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں
دنیا بھر میں ٹرانسجینڈر خواجہ سرا یا ہجڑوں کی تعداد اعشاریہ صفر دو سے اعشاریہ صفر پانچ تک ہے دنیا بھر میں ان سے کوئی بھی غیر اخلاقی سلوک روا نہیں رکھتا مگر انڈو پاک میں ان پر پبھتیاں کسی جاتی ہیں نامرد ہونا گالی کے طور پر لیا جاتا ہے، اکیس اگست دو ہزار سترہ کو انسانی حقوق کو پش نظر رکھتے ہوئے ان کے حق میں ٹرانسجینڈر بل کا مسودہ سینٹ آف پاکستان میں پیش کیا گیا ،پچیس ستمبر دو ہزار سترہ کو سینٹر نسرین جلیل کی سربراہی میں ان ممبران پر مشتمل کمیٹی بنا دی گئی جن میں سینیٹر ثمینہ سعید ،سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب، جمال الدینی، سینیٹر فرحت اللہ بابر ،سینیٹر کریم احمد ،خواجہ سینیٹر ستارہ ایاز، سینیٹر کلثوم پروین شامل تھے جس نے اسی دن اس بل کا جائزہ لیا نہ ہی تو اسلامی نظریاتی کونسل سے رجوع کیا اور نہ ہی پبلک ڈیبیٹ ہوئی ایک ہی سٹنگ میں بغیر میڈیکل بورڈ کو کنسلٹ کئے۔ کمیٹی کی طرف سے منظوری بھی ہو گئی انڈیا میں یا پوری دنیا میں ہوتا ہے کہ ایک میڈیکل بورڈ بیٹھتا ہے جو تصدیق یا تردید کرتا ہے جو انسانی جسم بارے بہتر طور پر معلومات فراہم کر سکتا ہے۔ میڈیکل سائنس اب اتنی ترقی کر چکی ہے کہ وہ اس بارے مستند رپورٹ پیش کرسکے مگر کمیٹی نے سیلف پرسیو کی بنا پر کہ بندہ خود بتائے کہ بتا تیری رضا کیا ہے، وہ کونسی شناخت چاہتا ہے کہ وہ مرد عورت یا حضرت مخنث میں سے کون ہے ،اسلامی نظریاتی کونسل سے جب نوٹ اسی فیور میں لیا گیا اس وقت کونسل کا چیئرمین ہی نامزد نہیں کیا گیا تھا، مطلب چوٹ لگانے کے لیے لوہا گرم تھا، سات مارچ دوہزار اٹھارہ کو کمیٹی ایک دفعہ پھر بیٹھی ،اس نے چند منٹ میں معاملہ نپٹا دیا اسی دن پیپلز پارٹی کے سینیٹر کرنل ریٹائیر سید طاہر مشہدی نے اس کمیٹی کی رپورٹ اسمبلی میں پیش کی پیپلز پارٹی کے سینیٹر کریم اے خواجہ نے بل پیش کیا ،پیپلز پارٹی کی سینیٹر روبینہ خالد پی ایم ایل کیو کی سینیٹر روبینہ عرفان پی ٹی آئی کی سینیٹر ثمینہ سعید اور پی ایم ایل کی سینیٹر کلثوم پروین کے بی ہاف پر یہ بل سینٹ میں پیش کر دیا گیا ،انسانی حقوق کے وزیر ممتاز تارڑ صاحب نے بل پیش کرنے والوں سراہتے ہوئے اس بل کی حمایت کی پیپلز پارٹی کے اس وقت کے چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے بل کی مبالغہ آمیز تعریف کرتے ہوئے چند منٹ میں اسے پاس کر دیا آٹھ مئی دوہزار اٹھارہ کو قومی اسمبلی میں یہی بل پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی نوید قمر نے پیش کیا۔ قومی اسمبلی کی رکن کشور اور عائشہ سعید صاحبہ نے اس پر اعتراضات اٹھائے کہ پہلے اسلامی نظریاتی کونسل سے مشورہ کریں اور پھر تبدیلی کیساتھ دوبارہ پیش کریں مگر سب اعتراضات مسترد کرتے ہوئے قومی اسمبلی سے بھی پاس کروا لیا گیا ،اب اس بل پر قوم کو تحفظات ہیں، بل وفاقی شرعیہ کورٹ میں اپنی باری کے انتظار میں بھی ہے، ممکن ہے کہ اس کے سننے کی باری اگلے پچاس سال تک نہ آئے اور آئے بھی تو ریویو میں چلا جائے اصل میں تو یہ بل ٹرانسجینڈر بعنی خواجہ سرا کے حقوق کا بل ہے مگر اس سے فائدہ کون اٹھائے گا یا اٹھا چکا؟ کوئی بھی نادرہ کے دفتر میں جا کر بغیر کسی ثبوت یا میڈیکل سرٹیفکیٹ پیش کئے کہ اسکا جینڈر سیکس اور جنس تبدیل ہوگئی ہے تو وہ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پر تبدیلی کروا سکتا ہے ،اس بل کے پاس ہونے سے اب تک بتیس ہزار لوگ مذکر سے مونث یا مونث سے مذکر یا ٹرانسجینڈر میں تبدیل ہو چکے ہیں ،اس کے مضمرات پر معاشرے میں جو تبدیلی آئے گی وہ تو آئے گی وراثت میں، گے میرج میں، مغرب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سیم سیکس میرج ایک ہی جنس کے لوگوں کی خواہش والے بھی فائدہ اٹھائیں گے مگر سیاسی سطح پر ملک کی ایک وقت میں سب سے بڑی پارٹی کے سربراہ جو اس وقت دوہزار اٹھارہ کا الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہے تھے کہ جن کی اپنی تثنیث بھی مشکوک تھی اور ہے لیکن الیکشن کاغذات کو اس بیس پر چیلنج نہ کر دیا جائے اور اگر کر بھی دیا جاتا تو میڈیکل بورڈ کی شرط بھی نہ رکھی کہ بھرم باقی رہے جبکہ سابقہ صدر اپنے اس سپوت کو اپنی زندگی میں وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں اگر ایک شخص کو تیسری مرتبہ وزیر اعظم کی کرسی پر دیکھنے کی خواہش میں ملکی قانون تبدیل کیا جاسکتا ہے تو ایک ایسے شخص کو جو اس عہدے کا اہل ہی نہیں اس کے خاندانی وقار اور ٹریڈیشن کو برقرار رکھنے کیلئے جن انسانی بھلائی کے قوانین پر ستر سالوں میں کسی نے توجہ نہ دی ہو وہ صرف تین نشستوں میں بن بھی جاتے ہیں اور لاگو بھی ہو جاتے ہیں۔
٭٭٭