قارئین وطن! میرے پچھلے کالم بد قسمتی کب پیچھا چھوڑے گی پر میرے ایک نہائیت ہی شفیق اور بڑے بھائیوں جیسے دوست اعجاز خان صاحب نے اپنا کمنٹ بھیجا کہ دُکھی دل کی درد ناک آہ میں نے ان کو جواب میں لکھا کہ جس شخص نے اپنی ماں مادرے وطن کو دو لخت ہوتے دیکھا ہو اور پھر سیاسی اور خاکی گدوں کو لاش کو نوچتے دیکھا ہو تو آہ ہی نکلنی ہے،ابھی تو مادرے وطن کو اپنے قیام کے سال ہی ہوئے تھے مشرق اور مغرب کو الگ الگ کر دیا،جب لوگ یہ دعا کرتے ہیں کہ پاکستان قیامت تک قائم رہنے کے لئے بنا ہے ،اس پر کوئی آنچ نہیں آئے گی تو میرے دل سے بھی دعا نکلتی ہے آمین لیکن پھر میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ میں تو پاکستان قیامت تک قائم رہنے کے لئے بنا تھا پھر یہ ٹوٹ کیوں گیا سب جانتے ہیں کہ ایوب ، یحییٰ ، ضیاالحق ، مشرف اور چھوٹے بڑے کئی گدوں نے اپنی حکمرانی اور لالچوں کو فروغ دینے کے لئے مادرِ وطن کو تار تار کیا اور صاحب بہادر امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے بقول فراز!
امیر شہر لوٹ لیتا ہے غریبوں کو
کبھی بنام وطن کبھی بحیلہ مذہب
اہل وطن اسی شعر کے مصداق آج بھی ہم لٹ رہے ہیں ،مر رہے ہیں اور نعرہ مستانہ ہے کہ پاکستان قیامت تک قائم ہونے کیلئے بنا ہے۔
قارئین وطن! ہم دور کیوں جاتے ہیں کیا ہم اندھے اور بہرے ہیں کیا ہمیں نظر نہیں آ رہا کہ مسند اقتدار پر کون براجمان ہے شہباز شریف ایک مستند منی لانڈرنگ کا مجرم اس کی کابینہ کون ہے عادی اور پیشہ ور مجرم ، ملک سیلاب کی ہولناک تباہ کاریوں میں ڈوبا ہوا ہے اور وطنِ عزیز کا موضع سخن کیا ہے جرنل باجوہ کو ایکسٹینشن دینی ہے کہ نہی آئندہ کا میر سپاہ کس کو بنایا جائے کون ہماری ضرورتوں کا اچھی طرح خیال رکھے گا، ملک میں پھیلی ہوئی بے روز گاری مہنگائی اور ڈالر کی گرتی ہوئی ساکھ اور آئی ایم ایف کس طرف مادرِ وطن کو دھخیل رہی ہے ہماری ایک ملین فوج کے سربراہ کو نظر نہیں آرہا کہ یہ سب کھیل ہمارے قیمتی اثاثوں کو ہڑپ کرنے کے لئے کھیلا جا رہا ہے ،اقتدار کی مسندوں پر براجمان باجوہ سے لے کر باقی ماندہ جرنلوں اور وزیر اعظم اور تمام کابینہ کو اچھی طرح پتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے ۔
قارئین وطن!اگر میں روں نہ تو اور کیا کروں بھء دور کیوں جاتے ہیں وزیر اعظم شہباز شریف جو کہ خود ایک مجرم ہے منی لانڈرنگ کیس پر سزا سے صرف اس لئے بچا ہوا ہے کہ اس کو راتوں رات جرنل باجوہ نے امریکی حکم پر عمران خان کی حکومت کو اعتماد کے ووٹ کا ڈرامہ رچا کر سڑکوں پر بھیجا اور اس کو وزیر اعظم بنا دیا اور وہ لنڈن میں اپنے بھائی نواز شریف جو خود ایک مجرم ہے اسحاق ڈار دوسرا مجرم اور بیٹا سلیمان شہباز مجرم اور تمام کے تمام مفرور سے ملنے پہنچا ہوا ہے تاکہ مفروروں کے جھتہ سے مشاورت ہو سکے کہ باجوہ کو ایکسٹینشن دیں اور آئیندہ کس کو بنایا جائے آہ آہ آہ اس پر دو طرفہ تماشہ موصوف جرنل اسمبلی کے اجلاس میں خطاب بھی فرمائیں گے یہ سب تماشے ہنستے کھیلتے ہوں گے اور میرے ملک کے ڈیفنس کو اصل میں ڈیفنڈ کرنے والی ڈیفنس مشینری کو رول بیک کیا جائے گا اگر میری چھوٹی سی آنکھ یہ سب کچھ ہوتا دیکھ رہی ہے تو بڑی بڑی آنکھیں کیوں نہیں دیکھ پا رہی ہیں یا دیکھنا نہیں چاہتی ہیں اب ملک کی ایسی صورت حال پر محترم اعجاز خان صاحب دل روئے گا نہیں اور آہ نہیں نکلے گی اور میں قیامت تک قائم رہنے والوں کو ڈائلاگ باز نہ کہوں تو اور کیا کہوں –
قارئین وطن! ہاں ہر دل یہ چاہتا ہے کہ پاکستان تا قیامت قائم دائم رہے تو اس کے لئے ہمیں اپنی ماضی اور حال کی قیادتوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے بشمول ہماری ڈیفنس مشینری پر بلکہ اس پر زیادہ آج ہمیں اس قیادت کی ضرورت ہے جو ہمیں بیرونی طاقتوں کے شکنجہ سے آزاد کرائے کہ جب تک ہم بیرونی تسلط سے نہیں نکلتے ہمارے ملک پر چوروں ڈاکوں اور میر جعفروں اور صادقوں کا بسیرا رہے گا ہمیں ایک اچھی معاشی پالیسی دینے والا حکمران چاہیے ہمیں وہ حکمران چاہئے جس میں آئی ایم ایف اور پاکستان کی عوام کا خون چوسنے والے بھیڑیوں سے نجات دلانے کی طاقت ہو جس میں شعور ہو کہ پاک فوج کا جرنئیل کس کو ہونا چاہئے جس کی آنکھ ہمارے دفاع پر ہونی چاہیے نہ کہ حکمران کے دفاع پر اے میری ملک کی کروڑ عوام ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ ہم بھی اپنی آنکھیں کھولیں اور اس شخص کا ساتھ دیں جس کو عمران خان کہتے ہیں جو ملک کو اوپر بیان ضرورتوں پر گامزن کر سکتا ہے – ملک کے ہر ادارے کی ذمہ داری اور اس کے ہیڈ کا انتخاب ایک صاف شفاف حکومت کی ذمہ داری ہے چور لوٹیرے اور زبردستی کے براجمان ٹولہ کی نہیں – اللہ پاک پاکستان کی حفاظت فرما اور ڈائلاگ بازوں کے قول کو سچا ثابت کر کہ پاکستان قیامت تک قائم دائم رہنے کے لیے بنا ہے آمین !
٭٭٭