گزشتہ کالم میں ہم نے اس امر کا اظہار کیا تھا کہ وطن عزیز میں جاری چلتر بازیوں اور غیر آئینی و غیر جمہوری شیشہ گری پر اظہار خیال کے برعکس دیگر موضوعات پر بھی اپنے احساسات و خیالات کو قلمبند کریں۔ ہمارا گزشتہ کالم اسی سلسلے کی پہلی کڑی تھی لیکن شو مئی حالات کہ جس طرف جس شعبہ پر نظر ڈالیں ہمیں دال میں کچھ کالا ہی نہیں پوری دال ہی کالی نظر آرہی ہے۔ غالب کی زبان میں ”حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو ”میں والا معاملہ ہے اور کوئی بھی شعبہ حرص و لالچ، بے اصولی اور مفادات کے گند سے محفوظ نظر نہیں آتا ہے۔ فی الوقت ورلڈکپ کا بخار کرکٹ کھیلنے والی اقوام ہی نہیں دیگر اقوام و کمیونٹیز کو بھی اپنے حصار میں لیے ہوئے ہے۔ کرکٹ کا جوش ویسے تو سارے ہی کرکٹ کھیلنے والے ممالک میں ہے لیکن بھارت میں ورلڈکپ کے انعقاد کے باعث بھارت اور پاکستان اور دنیا بھر میں مقیم ان ممالک کے عوام میں زیادہ ہے۔ کرکٹ کے کھیل کو جینٹل مین گیم کہا جاتا رہا ہے لیکن کرکٹ کے عالمی ادارے پر بھارت کے مالیاتی کنٹرول اور آسٹریلیا، انگلینڈ و بعض زیر اثر ممالک کے بورڈز کی جی حضوری سے جہاں آئی سی سی کی پالیسیاں بھارتی مرضی و منشاء کے تابع ہوتی ہیں، وہیں اس کھیل میں سٹہ بازی، فکسنگ اور پلیئرز پر چیز کا تماشہ کرکٹ میں بھی بدعنوانی، حرص و مفادات کا مظہر بن چکا ہے۔ اس تماشہ بازی، فکسنگ اور پلیئرز کنٹرول کیلئے بھارت سمیت دیگر ممالک میں بُکیز اور اداروں کا علم تو سب کو ہی تھا مگر حالیہ ورلڈکپ میں جہاں آئی سی سی کی ٹورنامنٹس کے نتائج کی پیشگی فیصلہ سازی کُھل کر سامنے آئی ہے وہیں پاکستان میں اس کھیل کے حوالے سے بھیانک انکشاف نے کرکٹ کے متوالوں اور شیدائیوں کو جھنجوڑ کے رکھ دیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ہونے کے ناطے پاکستان میں جوئے، بیٹنگ (اجتماعی شرط بازی) اور فکسنگ پر قانونی پابندی ہے تاہم ماضی میں بعض کرکٹرز پر ایسے الزامات لگتے رہے، انگلینڈ میں سلمان بٹ، محمد عامر اور محمد آصف وغیرہ پر سپاٹ فکسنگ کے باعث پابندی و سزائیں، جسٹس قیوم کمیشن کا فیصلہ، اس کی مثال ہے لیکن منظم طور پر اس حوالے سے سایہ کارپوریشن اور یازو کمپنی کے حوالے سے انضمام الحق، طلحہ رحمانی اور محمد رضوان کا ان کمپنیوں سے تعلق خصوصاً طلحہ کا جو سایہ کارپوریشن کا سربراہ ہے یازو میں ڈائریکٹر ہونا بہت سے سوالات کو جنم دے رہا ہے اور انضمام پر اُنگلیاں اُٹھانے کا سبب بن رہا ہے۔ انضمام کا استدلال ہے کہ یازو 2020ء میں انگلینڈ میں موٹر بائیکس کے ہیلمٹ بنانے کیلئے قائم کی تھی، سوال یہ ہے کہ اس کے ڈائریکٹرز کے طور پر طلحہ اور رضوان کو شامل کرنے کی کیا وجہ تھی جبکہ یہ حقیقت ہے کہ طلحہ کی سایہ کارپوریشن واضح طور پر پلیئرز ایجنٹ کمپنی کے طور پر آئی سی سی حتیٰ کہ پی سی بی میں رجسٹرڈ ہے۔ محمد رضوان کے حوالے سے بھی سوال اُٹھتا ہے کہ وہ نہ کارپوریٹ حوالے سے کسی شہرت کا حامل ہے اور نہ انویسٹر ہو سکتا ہے تو ڈائریکٹر شپ کا کیا جواز ہے۔ انضمام کے 39 سال تک کسی نہ کسی حوالے سے کرکٹ کے حوالے سے منسلک رہنے اور تبلیغ میں فعال رہنے کے باعث ہم کوئی الزام تراشی تو نہیں کرنا چاہتے لیکن ذکاء اشرف کے اس جملے پر کہ انضمام نے پلیئرز کو قابو کیا ہواہے شبہات تو اُبھرتے ہیں۔ ویسے ذکاء اشرف بھی کوئی فرشتہ نہیں، زرداری کا خاص ہے اور شنید تو یہ ہے کہ زرداری نے اسے چیئرمین پی سی بی اسی لئے بنوایا ہے کہ وہ آنے والے الیکشن میں اخراجات کیلئے بندوبست کروا سکے۔ ذکاء اشرف کی پی سی بی میں 90 دن کی توسیع بھی بے معنی نہیں۔
خیر پاکستان میں جو کچھ کرکٹ کے حوالے سے ہو رہا ہے اس کے نتائج تو سامنے آ ہی جانے ہیں لیکن حالیہ ورلڈکپ میں آئی سی سی اور بھارتی کرکٹ بورڈ جو کھیل بلکہ سازشی کھیل رچائے ہوئے ہیں اس کا انہیں مالی یا آپس کے تعلقات کا فائدہ تو ہو سکتا ہے کرکٹ اور اس کھیل کے ممالک و عوام کے حق میں ہر گز نہیں۔ سفید گیند سے کرکٹ کو متعارف کروانے والے انگلینڈ کی حالیہ ورلڈکپ میں بدترین کارکردگی، موجودہ ورلڈکپ میں 428 رنز اور چار دفعہ تین سو سے زائد رنز بنانے والے سائوتھ افریقہ کی بھارت کے ہاتھوں بدترین شکست، بھارت کی مسلسل 8 میچوں میں فتح، انٹرنیشنل کرکٹ میں میتھیوز کو ٹائم آئوٹ کرا کے بنگلہ دیش کی جیت خاص منصوبہ بندی کے تحت ہیں۔ آئی سی سی اگلا ورلڈکپ امریکہ میں کرا رہا ہے جس میں دنیا بھر کی 20 ٹیمیں امریکہ، کینیڈا، یو اے ای، و دیگر ممالک سمیت شریک ہونگی۔ اس ایونٹ کا سب سے اہم معاملہ فنانس، بھارتی امریکی اسپانسرز اور بی سی سی آئی کی اسپانسر شپ ہے اور آئی سی سی کا موجودہ ورلڈکپ سے آمدنی کا حصول ہے۔ ہمارا تجربہ ہے کہ اپنے اس سازشی مقصد کے تحت سیمی فائنلز پاکستان و بھارت اور آسٹریلیا و جنوبی افریقہ کے درمیان کرا کے چیمپئن بھارت کو بنوایا جائیگا۔ اس طرح آمدنی بھی بے حساب ہوگی اور بھارت کی خوشنودی بھی حاصل ہو جائیگی۔ رہ گیا پاکستان تو وہ نہ تین میں ہے نہ تیرہ میں، ایشیاء کپ کی میزبانی کے باوجود پاکستان کیساتھ جو کچھ ہوا ریکارڈ پر ہے۔
یہ امر ایک حقیقت ہے کہ جس گھر کا آوا ہی درست نہ ہو اس کے محلے دار و رشتہ دار بھی اس کیساتھ نہیں ہوتے۔ یہی حال قوموں اور ملکوں کے حوالے سے ہے۔ وطن عزیز میں بھی جس غیر آئینی، غیر جمہوری و غیر عوامی اقدامات کے سبب نہ ہی اندرونی حالات صحیح ہیں نہ ہی بین الاقوامی طور پر کوئی مقام حاصل ہے۔ حالات اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ نہ سیاسی حالات درست ہیں نہ معیشت کی کوئی سمت ہے۔ پاکستان کے اصل مقتدرین اپنے مقاصد اور اہداف کے حصول کیلئے جو کھیل کھیل رہے ہیں ان سے ایک طرف آئین و قانون کی دھجیاں بکھر رہی ہیں، مرضی نہ ماننے والوں کو قید و تشدد کر کے راضی و مجبور کیا جا رہا ہے، الیکشن کے انعقاد کا اعلان کیے جانے کے بعد بھگوڑے، سزا یافتہ کو اقتدار سونپنے کیلئے ہر وہ حربہ اختیار کیا جا رہا ہے جس سے عوام کے حقیقی نمائندوں کو پراسس سے دُور کر دیا جائے۔ا س سارے تماشے کو موجودہ نگراں حکمران تکمیل تک پہنچانے میں پورا پورا زور لگائے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف ملک میں دہشتگردی اس قدر زور پکڑ گئی ہے کہ ہفتہ بھر میں بلوچستان، میانوالی ایئربیس اور پشاور میں دہشتگردی سے ہمارے عسکری افراد درجنوں کی تعداد میں شہید ہو گئے ہیں، حد یہ ہے کہ عمران کے حق یا مقتدرین اور نوازشریف کیخلاف بولنے پر چینلز پر دبائو ڈال کر سینئر صحافیوں اور اینکرز کو ملازمتوں سے محروم کیا جا رہا ہے، اس کی تازہ ترین مثال کاشف عباسی اور چودھری غلام حسین ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح کے شیطانی منصوبوں اور ان پر عملداری سے کیا عمران کی مقبولیت اور عوام کی حمایت کو ختم کیا جا سکتا ہے، الیکشن اگر ہوئے اور شفاف و غیر جانبدار ہوئے تو لگ پتا جائیگا عوام کا اصل نمائندہ کون ہے، ن لیگیوں کو تو لاہور میں بھی امیدوار نہیں مل رہے ہیں۔
٭٭٭