قومی مکالمہ اور عام آدمی!!!

0
71

کوئٹہ میں ری امیجنگ پاکستان نیشنل ڈائیلاگ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ملکی معیشت کی بد حالی پر تشویش کا اظہار کیا۔انہوں نے سیاسی جماعتوں کی جانب سے ملکی مسائل کو نظر انداز کرنے کی روش پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یوں نظر آتا ہے کہ اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ الیکشن میں جیتنے اور ہارنے والوں کی لسٹ بنانا ہے ،ایسا ہوتا رہا تو مسائل حل نہیں ہوں گے۔ان کا یہ مشورہ معروضی صورتحال میں صائب معلوم ہوتا ہے کہ سب کچھ آزمایا جا چکا ہے تو اب ایک بار آئین کی پاسداری کو بھی موقع دیا جانا چاہئے۔سابق سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے سیمینار سے خطاب کے دوران کہا کہ پاکستان سیاسی بریک ڈاون کے قریب ہے، عوام اور سیاسی جماعتوں کا باہمی رابطہ ٹوٹ گیا ہے۔سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی کی رائے کے مطابق بلوچستان کے نو ہزار افراد لا پتہ ہیں ، بلوچستان میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا کر دیا گیا ہے۔سیمینار سے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے خطاب کرتے ہوئے معاشی بحران سے نکلنے کے موضوع پر اپنا موقف پیش کیا۔ قومی مکالمہ کا سلسلہ اس لحاظ سے کارآمد ہے کہ متضاد سیاسی نظریات کے حامل افراد اور جماعتوں کے مابین تبادلہ خیال کے پلیٹ فارم بد قسمتی سے متنازع بنا دئیے گئے ہیں۔ بحیثیت قوماہل پاکستان بانیان کی امنگوں کے مطابق وطن کی تعمیر نہ کرسکے ۔قوم ایک ہوتی ہے، سب کچھ پس پشت ڈال کر صرف قومی عصبیت کی پرورش کرتی ہے ، لیکن یہاں سب دوسروں سے زیادہ نسل پرست ہیں، ہر ایک دوسرے کے بارے میں شکایت کرتا ہے لیکن شاید ہی کبھی خود کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی ہو۔ایسا نہیں کہ ملک میں کوئی ترقی نہیں ہوئی ، ترقی ہوئی ہے لیکن اس انداز میں کہ پاکستان اب سب سے زیادہ آلودہ ممالک میں سے ایک ہے ،جہاں ہر جگہ پلاسٹک ہے،کچرا ہے اور کوئی صفائی کرنے والا نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک اپنے بانیوں کے وژن سے بہت دور ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح اور دیگر اکابرین چاہتے تھے کہ پاکستان خطے میں دوسرے ممالک کے لیے ایک مثال بنے، آج حالت یہ ہے کہ افغانستان جیسا بد حال ملک بھی معاشی طور پر پاکستان سے بہتر ہے ۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں تعلیم کی شرح نسبتا کم ہے، تباہ معیشت، خراب صنعتیں، دیگر مسائل کے علاوہ پاکستان میں دہشت گردی ہے جو بار بار سر اٹھاتی ہے۔ قوم پرستی کا تعلق حب الوطنی اور قومی شناخت سے ہو سکتا ہے۔ اس جذبے میں پاکستان نہ صرف مالا مال ہے بلکہ اپنی قوم پرستی کو زندہ رکھتا ہے۔پاکستان وہ ملک ہے جہاں باصلاحیت لیکن محروم لوگ بستے ہیں،ان پر وہ چند خاندان مسلط ہیں جو وراثتی سیاست پر زندہ ہیں اور جنہوں نے سیاست و حکومت کا حق بالائی طبقات تک محدود کر رکھا ہے ۔یوں پاکستان ایک جبر کا شکار ہے جو اہل قیادت کا انتخاب صرف دو تین گھرانوں سے کرتا ہے ۔ قومی مکالمے میں وراثتی سیاست پر اگرچہ کم گفتگو ہو رہی ہے لیکن سیاست سے اس برائی کا خاتمہ تازہ ہوا فراہم کرنے کا سبب ہو سکتا ہے۔ ایکمعیاری قوم پرستی ایک ترقی پذیر ملک کا بہترین اثاثہ ہے، پاکستان ایک کم ترقی پذیر ملک ہے جہاں قوم پرستی کی بجائے خاندانوں سے وفاداری کی بنیاد پر سیاسی حیثیت کا تعین کیا جاتا ہے ۔پاکستان میں وقفے وقفے سے جمہوریت ختم کی جاتی رہی ہے۔اگرچہ 2008 کے بعد سے مسلسل جمہوری دور ہے لیکن یہ جمہوریت جن جماعتوں اور لیڈروں کے ذریعے چل رہی ہے وہ جمہوری مزاج اور روایات سے نابلد ہیں۔اسی وجہ سے ہر آن کسی بحران کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔پاکستان کی نوزائیدہ جمہوریت کو سب سے بڑا خطرہ خود سیاسی جماعتوں سے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاست دان اپنے حلقوں کو اس تمثیل کی اہمیت پر قائل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ وہ اس نکتے کو آگے بڑھانے میں ناکام رہے ہیں کہ سیاست ایک گندا لفظ ہونے کے بجائے براہ راست ان کی اپنی زندگیوں کے ساتھ ساتھ وسیع تر معاشرے میں ضروری تبدیلیاں لانے کے لیے بات چیت اور گفت و شنید کا عمل ہے۔یہ باہمی رابطے کی کمی ہے جو لوگوں کو جمہوریت کے تصور کے طور پر فکر مند کرتی ہے۔ عام شہری کے لیے جمہوریت اور آمریت میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ عام لوگوں کو جو مسائل لاحق ہیں حکمران اشرافیہ اس سے واقف ہی نہیں، یہ مسائل ملک کو پریشان کر رہے ہیں، قطع نظر اس کے کہ سربراہ کون ہے۔ منتخب قیادت یا آمر۔ سیاسی جماعتوں کو یہ سیکھنا چاہیے کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کی زیادتیوں کے خلاف محض غصہ دکھانے سے بڑھ کر کردار ادا کرنا ہوگا جو جمہوری گورننس بہتر بنا کر ادا کیا جا سکتا ہے۔ انہیں عمل کی ضرورت ہوگی۔پیش منظر میں سیاسی جماعتوں کے پاس عام آدمی کے لئے کچھ نہیں، منشور میں عوامی مطالبات شامل نہیں۔توانائی ،بین الاقوامی تجارت ، زرعی ٹیکنالوجی، خلائی تحقیق، مصنوعی ذہانت، شجر کاری ، سیاحت ،پارلیمان کی بالا دستی ، قانون کی حکمرانی، عوامی شکایات کے ازالے اور مہنگائی کو قابو میں رکھنے کی بابت سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی قابل عمل منصوبہ نہیں۔تعلیم اور علاج کی سہولیات کا کوئی پرسان حال نہیں۔ بے روزگاری پھیل رہی ہے، پٹوار اور تھانہ کسی کے قابو میں نہیں آ سکے ۔ غیر متنازع لیڈر شپ کو اُبھرنے کا موقع نہیں مل رہا ۔قومی مکالمہ میں اظہار خیال کرنے والے سینئر سیاست دان سماج میں احترام رکھتے ہیں ان کی سفارشات سے سیاسی اصلاحات کا راستہ کھل سکتا ہے ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here