فلم اور سیاست، ہدایت کار کون؟

0
258

اس دور میں کالم لکھنا ایک مشکل کام ٹہرا۔ ساٹھ کی دہائی کے کالم معنی خیز، تحقیقاتی اور تنقید سے بھرپور ہوش ربا تھے۔ جو اداریئے کے ساتھ مل کر چلتے تھے۔ اور طنز ومزاح سے بھرپور ہوتے تھے۔ رئیس امروہوی، ابن انشائ، شوکت تھانوی، اسد اللہ خان اس دور میں اداریہ یا کالم چھپتے ہی حکومت اور انتظامیہ دوڑ پڑتی تھی اور خود کی کارکردگی بہتر بنانے کی کوشش کرتی تھی۔ میڈیا دھوبی گھاٹ نہیں تھا جہاں اقسام کے دھوبی آکر اپنے اپنے کپڑے دھوتے تھے۔ ان کالموں اور اداریوں کو عوام شوق سے پڑھتے تھے جو انکی نر کے سامنے سے گزرتا تھا۔ دوسرے دن وہ اخبارات میں دیکھ لیتے تھے۔ بھٹو حکومت آگئی تھی۔ اور ہماری روانگی امریکہ کے لئے تھی، حیدر آباد سے کوٹری اٹیشن آئے جہاں گاڑی آدھ گھنٹے رکتی تھی پلیٹ فارم پر بک اسٹال پر ترتیب سے رکھے اخبارات پر پڑی خبر تھی۔ ڈالر گیارہ روپے کا ہوگیا، بیرونی ملک بالخصوص امریکہ کا کرایہ ساڑھے سات ہزار روپے ہوگیا۔ ہم پر بجلی گری ملک سے نکلنے کے لئے آخری دروازے پر آئے تو دروازہ بند ہوگیا اب کیسے جائیں۔ سوچا گھر لوٹ جائیں لیکن کچھ سوچ کر مہران ایکسپریس میں دوبارہ چڑھ گئے جیب میں ٹکٹ کے لئے ساڑھے تین ہزار تھے باقی دو سو روپے اور 100ڈالر کا امریکی بنک ڈرافٹ تھا۔ ۔کراچی اتر کر سیدھے جنگ کے دفتر پہنچے اور یوسف صدیقی(ایڈیٹر) صاحب سے ملے جن سے پہلے سے جان پہچان تھی ”کیسے آنا ہوا ”پوچھا گیا ”مستقبل تاریک ہوگیا” ہمارا جواب تھا کہنے لگے صاحبزادے کھل کر بتائو کیا ہوا تم بڑے پریشان لگ رہے ہو ہم نے بتایا کہ ہمارے پاس ساڑھے تین ہزار ہیں اور دام بڑھ گئے ہیں آپ کو کچھ کرنا ہوگا یہ سننے کے بعد انہوں نے کہا ”ہاں مجھے فون آرہے ہیں تمہاری طرح اور بھی بہت سے طلباء ہیں تو میں اداریہ لکھ رہا ہوں حکومت کچھ نہ کچھ کرے گی یا رعایت دے گی۔ ”قصہ مختصر دوسرے دن جنگ کا اداریہ اس بابت تھا جس میں اپیل تھی کہ باہر جانے والے طلباء کو رعایت دی جائے۔ اور اُسی شام حکومت کی طرف سے اعلان ہوگیا کہ جن کے پاس ویزہ ہیں اور تیار ہیں ان کے لئے حومت کی طرف سے رعایت ہوگی۔ ٹکٹ میں لہذا اب ساڑھے پانچ ہزار کی رقم درکار تھی جو ہمارے دوستوں نے پوری کی اور ہم یہاں آگئے۔1972مئی میں۔ کیا آج ایا ہے کہ اخبار لکھیں اور حکومت آنکھیں کھول کر پڑھے۔ اور حرکت میں آجائے۔ ایسا بھی ہے کہ اخبار اور میڈیا پر پابندی ہے کہ وہ کچھ نہیں لکھ سکتے۔ اس جمہوریت میں یہ نہایت ہی خطرناک، ظالم اور انسانی حقوق پر قدغن ہے۔ جو ایک ناتجربہ کار امریکہ کے آلہ کار جنرل نے لگائی ہے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ23کروڑ عوام کے من پسن لیڈر کو جو بیرونی دنیا میں ملک کی پہچان ہے یوں دفن کرکے الٹی سیدھی باتوں پر بات ہوگی۔ پریس کانفرنس ہونگی۔ مستقبل کے پروگرام مرتب ہونگے(جن پر عمل نہیں ہوگا) اور فالتو باتیں ہونگی۔ نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے بدعنوان لیڈر بکواس کرتے پھرینگے ایسی سیاست جس کی مثال ہم آج کی انڈیا میں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے سے بھرر فلموں سے دینگے کہ جب ہم لوگں سے پوچھتے ہیں یہ کس قسم کی فلمیں بن رہی ہیں تو جواب ہوتا ہے ”جو عوام چاہتے ہیں” اور حوالے کے طور پر ایک مشہور نام لینگے جاوید اختر، جو مشہور ترقی پسند شاعر جان نثار اختر کے ایک نافرمان اور موقع پرست انسان ہیں فلم منیر کے ایوارڈ شو میں آئے اور پاکستان کے خلاف جملہ بازی کی ہمیں یقین ہے کہ حکومت نے ان سے ایسا کچھ نہیں کہا ہوگا۔ اور جس گانے پر ایوارڈ ملا وہ ”ایک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا” محبت اور پیار کے گیت لکھنے والے نفرتیں نہیں پھیلاتے یقین نہیں آتا کہ یہ شخص جان نثار اختر جیسے شاعر کا بیٹا ہے۔ اور نہ ہی لگتا ہے کہ اس کی ماں اپنے وقت کی شوہر پرست بیوی تھی جن کا نام تھا صفیہ اختر وہ ادبی حلقوں میں جانی پہچانی تھیں جنہوں نے برے حالات میں صبر سے کام لیا۔ ایسی مان کا ایسا بیٹا علیگڑھ مشاعرے میں ہم نے ان سے ملنے کی کوشش کی کہ اکیلے میں پوچھیں کہ انہیں پاکستان سے کیا دشمنی ہے۔ اس ضمن میں ہم بہت کچھ لکھ سکتے ہیں لیکن فی الحال یہ بتائیں کہ انکا کہنا تھا کہ ”ہم وہ ہی فلمیں بناتے ہیں جو عوام چاہتے ہیں۔ جب کہ ہدایت کار فلم کے ذریعے عوام کو شعور دیتا ہے ماحول سے آگاہ کرتا ہے۔ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اور مایوسیوں سے دور کرتا ہے اور سات ہی تفریح فراہم کرتا ہے لہذا جاوید اختر کی سوچ غلط انتہائی غلط ہے جب کہ1952میں ریلیز فلم آن کے ہدایت کار محبوب خان سے اسکرین اور فلم فیر کے ایڈیٹر نے پوچھا”آپ کو یقین ہے کہ لوگ اسے پسند کرینگے اس لئے کہ یہ رجواڑں اور راجائوں کی کہانی ہے؟ ”
محبوب نے مسکرا کر جواب دیا”میں نے فلم انداز، انمول گھڑی، انوکھی ادا عوام سے پوچھ کر بنائی تھی کیا۔ ان فلموں میں ایک پیغام تھا۔ معاشرہ تھا اور رومانس تھا”
محبوب خان کی یہ بات سوفیصد درست تھی کہ فلموں نے معاشرے کو دکھایا اور عوام کو شعور دیا، لیکن آج جو کچھ ہندوستانی فلموں میں دکھایا جارہا ہے وہ تکنالوجی، دھوم دھڑ کا فحاشی پر ہے۔ حالیہ تلیگو فلم، RRRمیں ایسا ہی کچھ ہے جیسے راجہ مولی نے بنایا ہے۔ رام چرن اور این ٹی رامارائو سے مل کر فلم بن چکی تو نام نہیں مل رہا تھا کہ ایک بے تکی کہانی کو انقلابی فلم کیسے کہیں فیصلہ ہوا کہ تینوں ناموں میںRمشترک ہے۔ لہذاRRRرکھ دیا جائے اور پوسٹرز میںRRRپرRISE ROARاورREVOLTابھارا جائے۔ لیکن فلم میں سوائے دونوں ہیروز کے ٹیپ ڈانسNAATV NAATVکے کچھ نہیں کوفت کے سوا۔ مطلب یہ کہ یہ چیز عوام پر تھوپی جاتی ہے پوچھ کر نہیں بنائی جاتی اور نہ ہی ان فلموں سے تفریح کے علاوہ شعور بیدا ہوتا ہے۔ جو لوگوں میں نفرت کی جگہ محبت پیدا کردے تو یہ آرٹ نہیں پروپیگنڈا ہے اور اس کی پیداوار شیوسینا ہے۔
یہ ہی حال پاکستان اور ہندوستان کی سیاست کا ہے کہ اپنی مرضی کی سیاست تھو دو، پاکستان میں ایسا ہی ہو رہا ہے عرصہ سے اور اب عروج پر ہے کہ حکومت(موجودہ) اور اس کے سہولت کار آرمی جنرلز اپنی مرضی تھوپ رہے ہیں اور چونکہ پچھلے40برسوں میں ان ناکارہ، کرپٹ لوگوں کے ہاتھ میں ملک ہے۔ تو وہ شیراز بکھیر رہے ہیں اور اندھے ہوچکے ہیں کہ محبوب خان کی طرح عوام کو شعور دیں کہ ملک سے محبت ہوجائے، اس طرح حکومتیں نہیں چلتی ہیں کہ آرمی22کروڑ عوام کے خلاف گندے اور کرپٹ سیاست دانوں کے ساتھ مل کر انکا جینا حرام کردے انکی خوشیاں چھین لے انکے گھروں میں گھس کر انکی ماں بہنیں اور بیٹیوں کو اٹھا لے جائے تو کیا فرق ہے کمینے، بدمعاشوں اور شرابی لوگوں اور ان میں جو یا تو نشے کی حالت میں اپنی طاقت کا استعمال جو دشمن ملک سے ہو۔ بزدل بنے اپنے ہی عوام کو بزدل بنا چکے ہیں اور انکا کیا یہ ملک کو لوٹ کر تباہ برباد کرکے امریکہ یا برطانیہ دبئی میں جابسینگے۔ یہ تاریخ لکھی جائے گی ایک اسلامی ملک کی اور گنتی نہ رہے گی پاکستان کی نہ تین میں اور تیرہ میں ابھی بھی وقت ہے کہ ہوش کے ناخن لے لیں امریکہ کے کہنے پر صرف عمران خان کی خاطر ملک تباہ نہ کریں اور اپنے پڑوسی دشمن کو ہنسنے کا موقعہ نہ دیں کسی نے اور بارہا ہم سے کہا گیا کہ آپ کے لکھنے سے کیا ہوگا۔ درست کہ124000ہزار پغیمبر کی نہ کرسکے اور آخری پیغمبر جس نے چند سالوں میں دنیا پر چھائے ظالموں کا صفایا کرکے ایک نہایت منصف معاشرہ قائم کیا۔ حق دیا ایک عام آدمی کو حضرت عمر سے پوچھنے کا کہ یہ لباس کہاں سے آیا کیا ہم پوچھ سکتے ہیں ان حکمرانوں سے کہ یہ مہنگی کاریں یہ عالیشان محل نما گھر یہ بیرون ممالک میں بزنس کہاں سے بنایا۔ جواب ہے تو دیں ورنہ ڈوب مریں اس سیاست میں ان بہکے سیاستدانوں اور آرمی جنرلوں پر مولانا طارق جمیل کا اثر نہ ہوگا ویسے بھی وہ لوگوں کو جنت جانے کی ترکیب بتاتے ہیں۔ اللہ انہیں خوش رکھے۔
آج کا پاکستان ایک نہایت ہی ظالم حکمران کے نیچے میں ہے عقاب کی مانند وہ اسے اونچا لے جاکر پٹخ دے گا اور ریزے ریزے ہوجائے گا۔ آج کے ہدایت کار یہ ہی ہیں۔ اور آج کے دیکھنے والے اس کے عادی ہوچکے ہیں کہ وہ کچھ نہیں کرسکتے۔ جیسے چا ہو اٹھا کر بند کردو، غائب کردو، مار دو اور میڈیا پر آکر کہو۔ ہم سب کا محاصرہ کرینگے جو باہر ملکوں میں بیٹھے افواج پاکستان کے خلاف بھونک رہے ہیں عاصم منیر بھونک نہیں رہے بلکہ وارننگ دے رہے ہیں، باز آجائو اپنی حرکتوں سے اللہ دیکھ رہا ہے۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here