پاکستان میں الیکشن کے انعقاد کے لیے نگران سیٹ اپ کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے ، اور ایسا کئی مرتبہ ہوا ہے جب نگران سیٹ اپ نے ملک میں الیکشن کی راہ ہموار کی، نگران وزیراعظم کی اولین ذمہ داری الیکشن کا انعقاد ہوتے ہیں لیکن موجودہ اور آٹھویں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اسٹیبلشمنٹ کا” مہرہ” ثابت ہو رہے ہیں، وہ ایسے حکومتی معاملات انجام دے رہے ہیں جیسے کہ ابھی الیکشن میں اکثریت حاصل کر کے اقتدار میں آئے ہوں ، بجٹ پاس کرنا، آئی ایم ایف سے معاملات ، یواین اجلاس میں شرکت ، غیر ملکی دورے یہ سب کام نگران حکومتوں یا نگران وزیراعظم کے کرنے کے نہیں ہیں ، ان کی اولین ترجیح الیکشن ہوتا ہے جس سے متعلق اس حکومت اور موجودہ نگران وزیراعظم کی کوئی دلچسپی نہیں ہے ، الیکشن کمیشن ، صدر مملکت ، کوئی الیکشن کی تاریخ دینے کے لیے تیار نہیں اور نگران وزیراعظم غیرملکی دوروں پر مصروف ہیں ۔اب تک جتنی بھی نگران حکومتیں قائم ہوئی ہیں سبھی نے آئینی مدت کے اندر الیکشن کا انعقاد ممکن بنایا ہے ، اگست 1990کو غلام مصطفی جتوئی پہلے نگران وزیراعظم منتخب ہوئے تھے جنھوں نے نومبر 1990کو الیکشن کا کامیاب انعقاد کروایا اور نواز شریف وزیراعظم منتخب ہوئے۔ بلخ شیر مزاری، ملک کے دوسرے نگراں وزیرِاعظم بنے۔ اِن کی نگرانی میں الیکشن کا انعقاد نہ ہوسکا تھا۔ معاملہ یہ ہوا کہ 19اپریل 1993کو صدر غلام اسحق خان نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے میاں نواز شریف کی حکومت کو برطرف کردیا اور بلخ شیر مزاری کو نگراں وزیرِ اعظم مقررکردیا۔ مگر سپریم کورٹ نے میاں نوازشریف کی حکومت کو بحال کردیا اور یوں نگراں حکومت کالعدم ہوگئی۔ اس طرح بلخ شیر مزاری محض 39 دِن وزیرِ اعظم رہے۔معین قریشی تیسرے نگران وزیراعظم تھے ،تاہم 1990میں قائم ہونے والی حکومت اپنی مدت پوری نہ کرسکی اور نئے انتخابات کا انعقاد 1993میں ہوا۔اس بار نگراں وزیرِ اعظم کا قرعہ معین قریشی کے نام نکلا۔ معین قریشی کو ملک سے باہر سے لا کر نگراں وزیرِ اعظم بنایا گیا۔ 1990 انتخابات کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو دوسری بار وزیرِ اعظم بنیں۔ 1993میں بننے والی بے نظیر بھٹو کی حکومت بھی مدت پوری نہ کرسکی اور 1997میں عام انتخابات ہوئے۔ اس بار ملک معراج خالد کو نگراں وزیرِاعظم بنایا گیا۔ معراج خالد ایک شریف اور پڑھے لکھے سیاست دان کی شہرت رکھتے تھے۔ یہ ایک عام آدمی تھے، جو اس منصب تک پہنچے۔انتخابات کے نتیجے میں میاں نواز شریف دوسری بار وزیرِ اعظم بنے۔ مگر بھاری مینڈیٹ سے منتخب ہونے والے وزیرِ اعظم کی حکومت بھی اپنی مدت پوری نہ کرسکی۔نگراں سیٹ اپ تشکیل نہیں پایا تھا۔ 2002 کے انتخابات جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں ہوئے۔2008کے انتخابات میں محمد میاں سومرو نگراں وزیرِ اعظم رہے۔ انتخابات کے نتیجے میں یوسف رضا گیلانی وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔ دسمبر 2007 میں بے نظیر بھٹو قاتلانہ حملے میں وفات کی وجہ سے انتخابات تاخیر کاشکار ہوئے تھے۔یہ سب سے طویل مدت کے لیے نگراں وزیرِ اعظم رہے، یعنی4 ماہ اور8 دِن۔ 2013میں قائم ہونے والی حکومت نے اپنی مدت پوری کی اور2018 میں ملکی تاریخ کے گیارہویں عام انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات کی نگرانی کے لیے سابق چیف جسٹس ناصر الملک کو نگراں وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ جسٹس ناصر الملک کو بطور نگراں وزیرِ اعظم کا فیصلہ قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف نے کیا تھا لیکن موجودہ نگران حکومت کسی طور پر الیکشن کرانے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہی ہے ، شاید اس کی ممکنہ وجہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے نگران حکومت اور نگران وزیراعظم کو یقین دہانی بھی ہے کہ آپ مال مفت دل بے رحم کی طرح انجوائے کریں، غیرملکی دورے کریں، عوامی پیسے پر موج مستی کا میلہ لگا ہوا ہے جبکہ عوام مہنگائی کی وجہ سے صرف ایک وقت کا کھانا ہی کھا پا رہے ہیں ، لوگ خودکشیوں پر مجبور ہیں اور جن کے پاس پیسہ ہے وہ بیرون ملک جانے کو ترجیح دے رہے ہیں ، امریکی ایمبیسی میں ویزہ درخواستوں کی ریکارڈ تعداد جمع ہوئی ہے جس کا اعلان ایمبیسی کی جانب سے بھی کیا گیا ہے ، ہر تین سے پانچ ماہ کے دوران 5سے 6 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر دیگر ممالک کا رخ کرنے پر مجبور ہیںلیکن موجودہ حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی، ڈالر نیچے لانے میں بھی آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کردار ادا کیا تو پھر حکومت کیا کر رہی ہے اور کیا کرنے آتی ہے؟ اگر ہر کام فوج نے ہی کرنا ہے تو مہنگائی کنٹرول کرنے کا ٹاسک بھی آرمی چیف کو ہی دے دیں ، عوام سکھ کا سانس تو لیں گے ، فوج نے اس حوالے سے اقدامات تیز کیے تو دنوں میں اشیا کی قیمتیں اپنے معمول پر آ سکتی ہیں ۔
٭٭٭