پاکستان میں ایک اور اہم تعیناتی یعنی چیف جسٹس آف پاکستان کا تقرر ہو چکا ہے، یہ پاکستان کی تاریخ کے شاید چند ججز میں ہوں گے جنہوں نے اس مقام کو پانے کے لیے بے شمار مشکلات کا سامنا کیا اور سابقہ حکومت نے ان کو اس منصب سے دور رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی، پاکستان میں چیف جسٹس فائز عیسی کی تقریب حلف برداری بھی موضوع خاص بنی ہوئی ہے کیونکہ انہوں نے اس موقع پر اپنی اہلیہ کو اپنے ساتھ کھڑا کیا اور حلف اٹھایا۔اب اس سارے منظر کو ہر کوئی اپنے الفاظ میں بیان کر رہا ہے، اگرچہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کی جانب سے اپنی اہلیہ کو تقریب حلف برداری کا موقع پر اپنے ساتھ کھڑا کرکے انہوں نے ان قوتوں کو پیغام دیا جو چیف جسٹس بننے کے راستے میں حائل تھے اور اس پلان کو کامیاب کرنے کے لیے ان کی اہلیہ کو بھی نشانہ بنایا گیا جبکہ کچھ لوگ اس کو اس بات سے تعبیر کر رہے ہیں کہ مقصد مشکل وقت میں اپنی اہلیہ کی جانب سے ساتھ دینے پر ان کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔غرض کے پاکستان کے چیف جسٹس فائز عیسیٰ کی یہ تقرری اور تقریبا حلف برداری ماضی کی نسبت کافی حد تک منفرد رہی لیکن اصل معاملہ اب شروع ہوگا، جسٹس فائز عیسی کے لیے موجودہ صورتحال میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا ایک چیلنج ہے۔ان کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا اگر اس کا اظہار انہوں نے اپنے فیصلوں میں بھی کیا تو یہ انصاف کے قتل عام تھے مترادف سمجھا جائے گا۔ جسٹس فائز عیسیٰ سے بہت سے لوگوں کو یہی توقع تھی کہ وہ سپریم کورٹ میں آج سے پہلے ہونے وہ فیصلے جو واضح طور پر خلاف قانون اور آئین تھے جبکہ وہ رویے جن سے تعصب واضح طور پر نظر آتا تھا ان کا خاتمہ کریں اور انصاف کے تقاضوں کو انہی وعدوں اور باتوں کی روشنی میں پورا کرے جو وہ کیا کرتے تھے۔آج بطور چیف جسٹس ان پر یہ ذمہ داری عائد ہوگی کہ وہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اپنی آئینی ذمہ داری کو اس طرح نبھائیں کہ ان پر کسی قسم کی جانبداری کا داغ نہ لگے کیونکہ پاکستان ایک اچھے جج کے ساتھ ساتھ اچھے انصاف کی راہ بھی دیکھتے دیکھتے اب تھک چکا ہے۔
٭٭٭