پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں مسلم لیگ ن کی بدترین شکست اور پھر سیالکوٹ ضمنی انتخاب میں اپنی سیٹ ہارنے کے بعد یوں لگتاہے کہ ملک کی سب سے پارٹی اپوزیشن جماعت صدمے کا شکار ہے۔جہاں پارٹی کی نائب صدر مریم نواز نے دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا ہے وہیں پارٹی کے صدر شہباز شریف اور قائد نواز شریف کی طرف سے مکمل خاموشی نظرآرہی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر میں مریم نواز نے متاثر کن انتخابی مہم چلائی اور بڑے بڑے جلسے کیے جس سے اس تاثر کو مزید تقویت ملی کہ وہ مجمع اکٹھا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، تاہم ان کے کامیاب جلسے ان کی انتخابی کامیابی میں نہ بدل سکے اور پارٹی کو مایوس کن شکست کا سامنا کرنا پڑا۔دوسری طرف پوری انتخابی مہم میں پارٹی کے صدر اور مریم ن کے چچا شہباز شریف مکمل طور پر منظر سے غائب نظر آئے۔ناصرف وہ کسی جلسے میں شریک نہ ہوئے بلکہ ٹوئٹر تک پر بھی کشمیر یا سیالکوٹ الیکشن اور دھاندلی کے الزامات کے حوالے سے کوئی خاص بیان نہیں دیا۔ ہاں وفاقی کابینہ کے رکن علی امین گنڈاپور کی طرف سے مریم نواز کو تھپڑ مارنے اور نامناسب زبان استعمال کرنے کی مذمت ضرور کی۔
ناصرف شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر نہیں گئے بلکہ پنجاب کے اندر قائم کشمیری حلقوں میں بھی انہوں نے کسی انتخابی سرگرمی میں حصہ نہ لیا نتیجتاً پارٹی اپنے گڑھ پنجاب کی نشستوں پر بھی توقع کے مطابق کامیابی حاصل نہ کرسکی۔ اسی طرح پارٹی کے قائد سابق وزیراعظم نواز شریف بھی کشمیر الیکشن سے قبل تو ضرور بولے مگر نتائج آنے کے بعد سے خاموش ہیں۔ بعض حلقوں کی طرف سے تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کشمیر اور سیالکوٹ ضمنی الیکشن میں مریم نواز کو فری ہینڈ دے کر اور ان کو انتخابی مہم کا انچارج بنا کر ان کی انتخابی معرکہ لڑنے کی صلاحتیوں کا ٹیسٹ لیا گیا مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکیں۔
اس حوالے سے سینیئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ‘مسلم لیگ ن کی سینیئر ترین قیادت کشمیر الیکشن کے بعد شاید اس لیے خاموش ہے کہ وہ سوچ رہے ہوں گے کہ کہاں غلطی ہوئی کہاں ٹھیک ہوا اور مثبت اور منفی پہلوؤں کا جائزہ لیا جا رہا ہو گا۔’ ان کا کہنا تھا کہ ‘وہ نہیں سمجھتے کہ شہباز شریف کی خاموشی کوئی پیغام ہے بلکہ واضح ہے کہ پارٹی کی سیاست مریم نواز کرتی ہیں اور شہباز شریف پارلیمانی سیاست کر رہے ہیں۔ شہباز شریف نے صرف ایک ہی جلسہ کیا اور وہ پی ڈی ایم کا جلسہ تھا۔’ان کے مطابق ‘مسلم لیگ ن میں بیانیے کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔ احتجاجی بیانیے کو انتخابی بیانیے میں بدلنا ہوتا ہے۔ احتجاجی بیانیے سے الیکشن نہیں جیتے جا سکتے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت پارٹی کو احتجاجی موڈ سے انتخابی موڈ میں نہیں لے جا سکی۔ جلسے بڑے بڑے ہوئے مگر نتائج درست نہیں آئے۔’
سینیئر تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کے مطابق ‘مسلم لیگ ن میں اختلاف رائے تو ہوسکتا ہے۔ مریم نواز کشمیر میں مہم چلا رہی تھیں اس لیے شہباز شریف نے جانا مناسب نہ سمجھا کیونکہ اس سے کنفیوژن پیدا ہوتی۔’ مریم نواز کا اپنا نکتہ نظر ہے شہباز شریف کا اپنا، اور جب پارٹی نے فیصلہ کیا کہ مریم نواز مہم چلائیں گی تو شہباز شریف نے کنارہ کشی اختیار کرلی۔’ ان کا کہنا تھا کہ ‘کشمیر میں مسلم لیگ ن کو 25 فیصد سے زائد ووٹ پڑے اس لیے پارٹی کا ووٹ بینک تو موجود ہے وہ نشستوں میں منتقل نہیں ہوا۔’ ‘پاکستان پیپلز پارٹی نے کم ووٹ لیے مگر زیادہ نشتیں اسے ملیں۔ برطانوی نظام جمہوریت میں ایسا ہو جاتا ہے۔’
مجیب الرحمن شامی کا کہنا تھا کہ ‘کشمیر الیکشن میں مہم شہباز شریف کے مزاج کے مطابق نہ تھی کیونکہ اس مہم میں اسلام آبادہدف تھا اور زیادہ تر گفتگو پاکستان کی سیاست کے بارے میں ہی کی گئی۔’