سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے !!!

0
59
رمضان رانا
رمضان رانا

پاکستان کی مختصر تاریخ میں سپریم کورٹ کے تمام تر چیف جسٹس منیر احمد، جسٹس انوارالحق، جسٹس ارشاد حسین وغیرہ کے فیصلوں کے باوجود کہ جنہوں نے پاکستانی عدلیہ کو داغدار کر دیا تھا جس کے داغ دھونے میں آج کی سپریم کورٹ نے بہت بڑا رول ادا کیا ہے کہ جب جولائی2009کو سپریم کورٹ نے چیف جسٹس افتخار چودھری کی سربراہی میں جنرل مشرف کے تمام تین نومبر2007کے اقدام کو کالعدم قرار دیتے ہوئے حکم دیا کہ جنرل مشرف پر آئین شکنی کے غداری کا مقدمہ قائم کیا جائے جو وزیراعظم نوازشریف کے دور حکومت میں ہوا جن پر سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ خصوصی عدالت نے چیف جسٹس پشاور وقار سیٹھ کی سربراہی میں آئین کی معطلی پر سزائے موت سنائی جس پر جنرلوں کی بدروحوں میں کہرام مچ گیا جس میں وزیراعظم عمران خان اپنے سر میں خاک ڈال کر رو رہے تھے کہ اب میرے حمائتی اور مددگار جنرلوں کا کیا ہوگا جو انہیں1995سے آج تک ہر طرح کی مدد فراہم کر رہے تھے جس میں جنرل مشرف کی بغاوت میں پیش پیش تھے۔ جس کے عوض جنرل مشرف نے انہیں اپنے ریفرنڈم کا ایجنٹ بنایا بعد میں انہیں ایک نشست میانوالی سے دلوائی تھی۔ تاہم جنرل مشرف کی سزائے موت سنانے والے چیف جسٹس وقار سیٹھ کو کرونا وبا کی آڑ میں مار دیا گیا جن کا نام پاکستان کی تاریخ میں زندہ رہے گا کہ انہوں نے کسی باغی جنرل کو پھانسی کی سزا کا عدالتی حکم دیا تھا۔ جس کی آج کی سپریم کورٹ نے کرپشن میں ملوث جج مظاہر نقوی کے ہائی کورٹ کے عدالتی فیصلے کو رد کرتے ہوئے جنرل مشرف کی سزائے موت بحال کردی ہے جو ایک بہت بڑا عدالتی فیصلہ ہے جس کو تاریخ پاکستان ہمیشہ یاد رکھے گی کہ کسی آئین شکن جنرل کو عدالت عظمیٰ نے سزائے موت دی تھی جس پر عملدرآمد شاید نہیں ہوگا کہ جنرل مشرف اس دنیا سے کوچ کر چکا ہے۔ اگر وہ برطانیہ میں وفات پاتا تو یقیناً وہاں کے لوگ قبر میں پڑے مجرم کو سزائے دینے کا مطالبہ کرتے چونکہ پاکستان میں اسلام کی آڑ میں لاش کی بے حرمتی کے باعث جنرل مشرف کو سزا دینا مشکل ہے چاہے وہ یزید اور فرعون کا ساتھی کیوں نہ ہو جبکہ جنرل مشرف میں یزید اور فرعون کی تمام بدکاریوں، برائیاں اور بدفعلیاں اور بداعمالیاں پائی جاتی تھیں۔ جنہوں نے آئین سے بغاوت کرتے ہوئے عوام کی منتخب حکومت پر قبضہ کیا تھا پارلیمنٹ کے بنائے آئین کو پائمال کیا۔ ملک قاضیوں کو برطرف کیا عیش وعشرت کے دروازے کھولے تھے۔ دہشت گردی کو فروغ دیا تھا دہشت گردی کی آڑ میں بین الاقوامی ڈاکو کا ساتھ دیا تھا۔ بہرکیف سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابقہ چیف جسٹس افتخار چودھری اور موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیٰسی کی سربراہی میں جنرل مشرف کے خلاف فیصلوں کی روشنی میں یہ امید پیدا ہو چکی ہے۔ کہ اب آئندہ کوئی جنرل پاکستان کا آئین پائمال نہیں کریگا۔ ناہی آئین معطل یا منسوخ کرنے کی جرات کرے گا۔ کاش یہ جج صاحبان1958، 1969، 1977، 1999میں ہوتے تو شاید جنرل ایوب خان، جنرل یحیٰی خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف آئین منسوخ اور معطل نہ کرتے جن کے ایسے اعمالوں سے ملک ٹوٹا تھا۔ پاکستان کو لاقانونیت میں شکار کردیا گیا۔ عوام کی منتخب پارلیمنٹوں اور حکومتوں کو برطرف کیا گیا پاکستان پر غیر قانونی اور غیر آئینی حکمرانی قائم ہوئی جس کی وجہ سے پاکستان ایک بنانا اسٹیٹ بن چکا ہے۔ جس کو واپس لینے کے لئے یا ملک میں قانون کی حکمرانی قائم کرنے اورآئین کی بالادستی قائم کرنے کے لئے لازم ہے کہ عدالت عظمیٰ اپنا کردار ادا کرے۔ جس میں سابقہ تمام عدالتی فیصلوں کو رد کرے جس میں جنرلوں کی عدالتی فیصلوں سے حمایت کی گئی ہے۔ جس کی بنا پر گورنر جنرل غلام محمد، آمر اور غاصب جنرل ایوب نے آئین1956کا آئین منسوخ کیا عیاشی جنرل یحٰیی خان نے1962کا آئین منسوخ کیا منافق آج ضیاء الحق، جنرل مشرف نے تین مرتبہ1973کے آئین کو معطل کیا تھا لہذا سپریم کورٹ کو تمام آمر اور جابر جنرلوں کو سزا دینا چاہئے تھا کہ پاکستان دنیا کی مہذب ریاستوں میں شامل ہوپائے۔ بہرحال دیر آئے درست آئے کہ آج کی سپریم کورٹ کے فیصلوں سے سابقہ جنرلوں اور ججوں کے اعمالوں اور کرداروں کو رد کیا جارہا ہے عدالت عظمیٰ اپنی ہی عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کو کالعدم قرار دے رہی ہے۔ جس میں آج کی سپریم کورٹ سے بھٹو کے عدالتی قتل کے بارے میں فیصلے سے بڑی توقع رکھی جارہی ہے۔ کہ جن کو اس عدالت نے سزا دی تھی جس کے جج نسیم حسن خان اپنے فیصلے پر رویا کہ جنرل ضیاء الحق نے زبردستی اور دبائو سے ججوں سے بھٹو کے خلاف فیصلہ دلوایا تھا جو عدالتی قتل ثابت ہوا۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here