قارئین کرام! امید ہے کہ آپ اپنے پیاروں کے ہمراہ خیریت سے ہونگے، میں گزشتہ ایک ہفتے سے پاکستان میں اپنے افراد خاندان اور احباب کیساتھ پیارے وطن کے شب و روز کو انجوائے کرنے کے علاوہ موجودہ معروضی خصوصاً سیاسی حالات کا جائزہ بھی لے رہا ہوں اور یہ کالم بھی پاکستان سے آپ کی نذر کر رہا ہوں۔ میرا پاکستان آنے کا سبب یہاں چند روز قیام کے بعد سعادت عمرہ کیلئے حرمین شریفین جانا ہے اور اگلا کالم انشاء اللہ سرزمین مقدس سے آپ کی نذر کرونگا۔ پاکستان میں میرا قیام اپنی جائے پیدائش فیصل آباد اور داتا کی نگری لاہور میں ہے۔ا س دوران جو سیاسی منظر نامہ خصوصاً 8 فروری کے مجوزہ انتخابات کے حوالے سے نظر آرہا ہے اس میں اسٹیبلشمنٹ کے عمران اور پی ٹی آئی کے تمام تر حربوں اور منصوبہ سازی کے باوجود عوامی حمایت و مقبولیت صرف کپتان اور پی ٹی آئی کی ہی واضح نظر آتی ہے۔ یہاں فیصل آباد میں تو صورتحال یہ ہے کہ مخالف جماعتوں کے امیدوار اور عمران کے منحرفین اپنے گھروں سے نکلنے کی بھی ہمت نہیں کر پا رہے ہیں، انتخابی کمپیئن اور جلسے و ریلیاں تو بہت دُور کی بات ہے۔ کچھ یہی صورتحال ن لیگ کے خود ساختہ گڑھ لاہور کی بھی نظر آتی ہے کہ شریفوں کو جلسے جلوسوں کجا اپنے امیدواروں کا فیصلہ کرنے کی بھی توفیق نہیں ہو سکی ہے۔ دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن کے پی ٹی آئی کے امیدواروں کی نا اہلی کی حرکات پر ٹریبونلز کے ججز نے اہل قرار دے کر سازشوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ اور اعلیٰ عدلیہ میں خلیج کا ذکر کرتے ہوئے اس سوچ کا اظہار کیا تھا کہ ہر دور میں اسٹیبلشمنٹ کیساتھ ایک پیج پر رہنے والی عدلیہ ہیومن رائٹس اور آئین کے تناظر میں اپنے ماتھے سے جی حضوری کا داغ مٹانا چاہتی ہے لیکن سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ کا نا اہلی کی مدت کے حوالے سے فیصلہ بادیٔ النظر میں اسٹیبلشمنٹ کی سوچ اور نوازشریف کو اہل قرار دے کر وزیراعظم بنانے کے مقصد کے بموجب کیا گیا ہے۔ ہمارا مطمع نظریہ ہے کہ 2018ء میں سمیع اللہ بلوچ کیس میں دیا گیا پانچ رکنی بینچ کا تا حیات نا اہلی کا یہ فیصلہ شروع سے ہی منازعہ رہا۔ بینچ کے اہم رکن جسٹس شیخ عظمت سعید نے فیصلے کی مخالفت اس نکتہ پر کی تھی کہ آرٹیکل 162ایف میں مدت کا تعین نہیں اور سول کرائم کی سزا تا حیات نہیں دی جا سکتی۔ حالیہ فیصلے سے اگرچہ نوازشریف اور جہانگیر ترین کے حق میں بات جاتی ہے لیکن یہ فیصلہ عمران کے حق میں بھی جاتا ہے کہ جو دشمن قوتیں اسے ہمیشہ کیلئے سیاسی منظر نامے اور عوام سے دور رکھنا چاہتی ہیں ان کیلئے اب یہ ممکن نہیں ہوگا۔عمران خان وہ نڈر اور عوام کا محبوب لیڈر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور اس کے آلۂ کاروں کے ہتھکنڈوں کے باوجود آہنی چٹان کی طرح نہ صرف ڈٹ کر کھڑا ہوا ہے بلکہ اپنے عزم و استقلال کی بنیاد پر مخالفین کیلئے حلق کی ہڈی بنا ہوا ہے جو نہ اُگلتے نہ نگلتے بنے۔ کراچی سے خیبر، گلگت بلتستان و کشمیر حتیٰ کہ اوورسیز میں بھی سارے پاکستانی عمران کی آواز بن کر حقیقی آزادی کے حصول کیلئے متحد نظر آتے ہیں۔ عمران کے نیوز ویک میں شائع ہونے والے آرٹیکل پر جیل انتظامیہ سمیت سب ہی ششدر ہیں، یہی نہیں عالمی میڈیا اس پر رائے زنی میں مصروف ہے تو عالمی قوت امریکی انتظامیہ اس پر اپنا مؤقف پیش کرر ہی ہے لیکن عمران نے شیر کی طرح اس کا اظہار کر دیا ہے کہ یہ آرٹیکل اس کا ہی تحریر کر دہ ہے۔ آنے والے دنوں میں عمران ایک اہم خطاب بھی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، ممکن ہے کہ جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں تو کپتان کا یہ خطاب آپ تک پہنچ چکا ہو۔ خبریں تو یہ بھی ہیں کہ عمران کے دلیرانہ اور مستحکم کردار اور تمام تر سختیوں اور خامہ فرسائیوں کو جھیلنے کے باوجود عوام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت و حمایت کے سبب مقتدرین یہ سوچنے پر مجبور گئے ہیں کہ انتخابات کو آگے بڑھا دیا جائے کہ اگر اس وقت الیکشن کرا دیئے گئے تو سوائے پی ٹی آئی کے کوئی جماعت بھی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی۔ سینیٹ میں باپ کے اراکین کی جانب سے الیکشنز کے التواء کی قرارداد کا پاس ہونا اور فضل الرحمن کا اس قرارداد کو اون کرنا بے معنی نہیں جبکہ یہ حقیقت ہے کہ باپ پارٹی اسٹیبلشمنٹ کی لے پالک ہے اور مولانا اقتدار کی خاطر ہر اقدام پر آمادہ نظر آتا ہے۔ خبر تو یہ بھی ہے کہ نوازشریف کی نا اہلی ختم ہونے کے باوجود وزارت عظمیٰ کا تاج سجانے کیلئے متبادل تلاش کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب عمران کی سائفر کیس میں رودبار جاری ہونے کے باوجود اسے جیل میں ہی رکھنے کے فیصلے پر بے خوف بہادر کپتان نے الیکشن 8 فروری کو ہی کرانے کا مطالبہ اور ہر حلقہ سے پی ٹی آئی کے حصہ لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ زندہ قوم کے رہنما کی اس سے اچھی مثال کیا ہو سکتی ہے۔
عمران کو جیل سے رہائی ملے یا نہ ملے، انتخاب میں اہل کیا جائے یا نہ کیا جائے، کتنے ہی مقدموں میں اُلجھا دیا جائے، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عمران خان ہی واحد لیڈر ہے جو قوم کا سچا رہنما اور عوام کا محبوب ہے۔ فیصلہ سازوں کو پاکستان اور پاکستانیوں کی سلامتی، خوشحالی اور بہتر مستقبل کیلئے اپنے منصوبوں اور مقاصد پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔ شفاف، منصفانہ و غیر جانبدارانہ انتخابات اور اقتدار حقیقی عوامی نمائندوں کو منتقل کرنا ہی واحد حل ہے۔
٭٭٭