راہ سلوک کا فقیر!!!

0
25
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

محترم قارئین کرام! آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے آج کے مقالے میں آپ کو راہ سیر سلوک کے مسافر فقیر کی تعریف پیش کی جائیگی جس کا مطلب اہل زبان اکثر لاعلمی میں بھکاری سمجھنے لگنے ہیں یہ تحقیق محترم فقیر نور محمد کلاچی صاحب کی ہے جس کو تحریر کیا گیا ہے البتہ ان کی رائے و تحقیق کا احترام ہے اس موضوع پر مزید لکھا جاتا رہیگا انشا اللہ۔ مقام غور ہے کہ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم تمام ظاہری و باطنی کمالات کے جامع ہیں لیکن آپۖنے کسی فن اور کمال پر فخر نہیں فرمایا۔ یعنی نہ شجاعت پر ، نہ سخاوت پر ۔ نہ تقومی و صبر پر نہ ترک و توکل پر اور نہ فصاحت و بلاغت پر لیکن حضور ۖ نے محض فقر کے کمال پر فخر کا اظہار فرمایا ہے اور ایک جگہ فرمایا ہے “الفقر فخِر والفقر مِنی فقر میر افخر ہے اور فقر ہی میرا اصل ترکہ اور ورثہ ہے۔ اب صرف یہ بات تشریح طلب ہے کہ آیا فقر کو نسا باطنی فن اور کمال ہے جس پر فخر الانبیا کی ذات بابرکات فخر فرماتی ہے۔ لغت عربی میں فقر، افلاس اور تنگدستی اور دینوی تشنگی و ناداری کو کہتے ہیں لیکن باطنی دنیا میں فقر دونوں جہاں کی بادشاہی اور سرداری کا نام ہے چنانچہ حضرت پیر محبوب سبحانی قدس اللہ سرہ العزیز سے کسی نے فقر کی تعریف پوچھی تو آپ نے فرمایا لیس الفقِیر من لیس لہ دِرہم ولا دِینار بلِ الفقِیر من قال لِشی ن فیون ” یعنی دنیائے باطن میں فقیر وہ نہیں جس کے پاس روپے پیسے نہ ہوں بلکہ فقیر وہ ہے جو کسی شے کے لئے کہہ دے کہ ہو جا پس وہ ہو جائے۔ یعنی فقیر وہ ممتاز اور محبوب ہستی ہے کہ جو مالک الملک ہو اور جس کی زبان سیف الرحمن ہو کہ جس کام کے لئے امر کرے کہ ہو جا پس وہ ہو جائے اور فقر کی تعریف یہ بھی آتی ہے کہ الفقر ِذا تم فہو اللہ ” یعنی جب فقر کا مرتبہ تمام ہو جاتا ہے تو بس اللہ ہی اللہ رہ جاتا ہے یعنی فقیر اللہ تعالی کے نور میں فنا حاصل کر کے اس کے نور سے باقی باللہ ہو جاتا ہے۔ سو باطن میں فقر سب سے اعلی ، افضل اور بلند ترین مرتبے اور ارفع ترین درجے کا نام ہے اور وہ فقر اختیاری ہے نہ کہ فقر اور افلاس اضطراری جو کہ محض دینوی مفلسی اور ناداری ہے اور مو جب رسوائی و خواری ہے۔ ایسے فقر نگو نسار سے پناہ مانگی گئی ہے کہ جس سے دینوی لالچ اور طمع کے سبب فقیر دنیا داروں کے سامنے ادب اور تعظیم کے لئے جھکے چنانچہ فرمایا ہے عوذ بِاللہِ مِن فقرِ المِب ” یعنی میں فقر نگو نسار سے پناہ مانگتا ہوں۔ ایسا فقر دونوں جہاں کی روسیاہی ہے لیکن فقر خاص الخاص تو دونوں جہاں کی بادشاہی ہے اس لئے باطن میں اس سے اعلی اور افضل اور کوئی رتبہ ہی نہیں ہے اور یہ بلند منصب سب انبیا مرسلین میں سے اللہ تعالی نے حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو مرحمت فرمایا اور بعدہ آپ ۖ کے طفیل آپ کی امت کے خاص خاص فنافی الرسول پاک ممتاز اشخاص اور مقدس ہستیوں کو اس سے سرفراز فرمایا۔ فقر پر حضرت ابوذرغفاری کی حدیث یوں تو فقر کی فضیلت میں بے شمار حدیثیں آئی ہیں لیکن ہم فقر کی فضلیت اور علو شان میں حضرت ابی ذر غفاری رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث پر اکتفا کرتے ہیں چنانچہ ایک دفعہ حضرت سرور کائنات ۖ مغموم اور اداس بیٹھے تھے اور آپ کی چشم مبارک سے آنسو جاری تھے کہ اس اثنا میں حضرت ابی ذر غفاری اللہ آپ کے پاس آنکلے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بخود حضرت ابی ذر غفاری لہ سے دریافت فرمایا کہ : ترجمہ حدیث: ایک روز حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم مغموم اور غمگین بیٹھے تھے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے کہ اتنے میں حضرت ابی ذرغفاری ، آپ کے پاس آنکلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی ذر غفاری سے دریافت فرمایا کہ اے ابی ذر!کیا تجھے معلوم ہے کہ میں کیوں مغموم اور محزون ہوں اور مجھے کس چیز کا اشتیاق ہے۔ ابی ذرنے عرض کیا یا رسول اللہ ۖ مجھے اپنے فکر اور غم سے آگاہ فرمائیے ۔ تب آنحضرت ۖ نے تین دفعہ آہ سرد ھیچ کر فرمایا آہ۔ آہ۔ آہ۔ میرے دل میں کسی قدر اشتیاق ہے اپنے ان بھائیوں کے دیکھنے کا جو میرے بعد دنیا میں آئیں گے۔ ان کی شان انبیا کی شان کے برابر ہوگی اور اللہ تعالی کے نزدیک وہ شہدا کا درجہ رکھتے ہوں گے۔ اپنے مولی کی رضا مندی کی خاطر وہ اپنے ماں باپ، بھائی بہنوں اور بیٹوں کو چھوڑ دیں گے اور اللہ تعالی کی طلب میں مال دنیا کو ترک کر دیں گے اور محض اللہ تعالی کے لئے اپنے نفسوں کو متواضع بنا ڈالیں گے۔ نفسانی رغبتوں شہوانی خواہشوں اور دنیاوی کاموں اور مرادوں کو بالکل ترک کر دیں گے۔ اللہ تعالی کی محبت میں مجذوب ہو کر اللہ تعالی کے گھر میں اکٹھے ہور ہیں گے۔ ان کے دل اللہ تعالی کی طرف پھرے ہوئے ہوں گے اور ان کی ارواح کو اللہ تعالی کی طرف سے تائید غیبی پہنچے گی اور ان کو علم لدنی اللہ تعالی کی طرف سے حاصل ہوگا۔ اگر ان میں سے کوئی ایک بیمار پڑ جائے تو اللہ تعالی کے نزدیک اسے اس مرض کا ہزار سال کی عبادت سے زیادہ ثواب ملے گا اور اسے اباذر!اگر تو چاہے تو اور زیادہ ان کی تعریف بیان کروں میں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ ۖ اور فرمائیے۔ تو آپ نے فرمایا کہ اگر ان میں سے کوئی اس حالت میں مر جائے تو اللہ تعالی کے نزدیک اس کی ایسی عزت اور توقیر ہوتی ہے کہ گویا اہل آسمان میں سے کوئی گذر گیا ہے۔ اے ابی ذر! اگر تو چاہے تو مزید بیان کروں؟ عرض کیا، ہاں! یا رسول اللہ ۖ اور فرمائیے تو آپ نے فرمایا کہ ان میں سے اگر کسی کو اس کے کپڑوں کی جوں ستائے تو اس تکلیف کے بدلے اللہ تعالی کے نزدیک اسے ستر مقبول بچوں اور ستر عمروں کا ثواب ملے گا اور اسے چالیس ایسے غلاموں کے آزاد کرنے کا اجر ملے گا جو حضرت اسماعیل کی اولاد سے ہوں اور ہر غلام بارہ ہزار دینار سے خریدا گیا ہو اور اگر تو چاہے اے ابی ذر!میں مزید بیان کروں۔ میں نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ ۖ اور فرمائیے تب آپ نے فرمایا کہ اگر ان میں سے کسی کو اپنے پچھلے دوستوں اور خویشوں کی یاد مگین کرے تو اسے اس غمگین ساعت کے ہر سانس کے عوض ہزار ہزار درجے ملیں گے اور اگر تو چاہے اے ابی ذرتو میں اور زیادہ بیان کروں۔ میں نے عرض کیا ہاں! یا رسول اللہ ۖ فرمائیے ۔ آپ نے فرمایا کہ اگر ان میں سے کوئی شخص دو رکعت نفل ادا کرے۔ تو گویا اس نے جبل عرفات میں نوح ان کی عمر کے برابر یعنی ہزار سال عبادت کی اور اگر تو چاہے اسے ابی ذرہے تو میں اور زیادہ تعریف کروں میں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ ۖ فرمائیے ۔ آپ نے فرمایا کہ اگر ان میں سے کوئی ایک دفعہ کے سبحان اللہ تو اس کے لئے آخرت میں اس سے بہتر ہو گا کہ اس نے دنیا میں سونے کا ایک پہاڑ راہ خدا میں خرچ کیا ہو۔ آپ نے پھر فرمایا اے ابی ذر! اگر تو چاہے تو اور زیادہ بیان کروں میں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ ۖ! ضرور فرمائیے ۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگر انہیں کوئی شخص حسن اعتقاد سے ایک نظر دیکھ لے تو اللہ کے نزدیک اس شخص کا دیکھنا بیت اللہ کے دیکھنے سے زیادہ موجب ثواب ہوگا اور جس شخص نے اسے دیکھا گویا اس نے اللہ تعالی کو دیکھا اور جس شخص نے اسے کپڑا پہنایا تو اس نے گویا اللہ تعالی کو کپڑا پہنایا اور جس شخص نے اسے کھانا کھلایا تو گویا اس نے اللہ تعالی کو کھانا کھلایا اور اگر تو چاہے اے ابی ذرہے تو اور زیادہ بیان کروں میں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ ۖ فرمائیے ۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگر ان میں سے کسی ایک کے پاس ایسے لوگ آبیٹھیں جو گناہوں پر اصرار کرنے والے اور گناہوں کے بوجھ سے گر انبار ہوں تو ان کے پاس بیٹھنے سے ان کے گناہ جھڑ جائیں گے اور وہ گناہوں سے سبکدوش ہو کر اٹھیں گے اللہ اکبر۔ اس کے ساتھ ہی اجازت اگلے ہفتے آپ کی مزید تشریحات اور نقاط پیش کیئے جائینگے امید ہے قارئین کرام ضرور پسند فرمائیں گے
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here