پاکستان رضی اللہ عنہ

0
53

محترم قارئین! جی ایم سی فائونڈیشن کے تحت چھپنے والا یہ آرٹیکل ہفتہ وار اہل سنت وجماعت کی خدمت میں حاضر ہے۔ اور اہل سنت وجماعت کی تعلیمات کا علمبردار ہے۔ میں یہ سب حضور اعلیٰ حضرت، محدث اعظم پاکستان اور نائب محدث اعظم پاکستان شمس المشائخ رضی اللہ عنھم کا فیضان ہے۔ حضور قائد ملت اسلامیہ صاحبزادہ پیر قاضی فیض رسول حیدر رضوی سجادہ نشین آستانہ عالیہ محدث اعظم پاکستان کی عالی قدر سرپرستی سے حاصل ہے۔ اسلام کے اندر زکواة اور صدقہ کو بہت زکواة اہمت حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ اور حضورۖ کے فرمانین میں اس کی بہت زیادہ فضلیت و درجہ بیان کیا گیا ہے۔ زکواة صدقہ کرنے والے کی بہت زیادہ فضلیت وبرکت یہاں کی گئی ہے اور نہ کرنے والے کی بہت زیادہ مذمت بیان کی گئی ہے۔ عام طور پر صدقہ تو ہر کسی مسلمان مرد وعورت کو کرنا چاہئے۔ باقی زکواة ہر اس مسلمان مرد وعورت پر فرض ہے جو صاحب مال ہو۔ باقی اس کی شرائط ہیں کہ یہ کس پر اور کب فرض ہوتی ہے۔ جس پر فرض ہوجائے اسے اپنے مال سے اڑھائی فیصد ادا کرنا ضروری ہوتی ہے۔ ادا نہ کرنے والے سخت گنہگار ہے۔ اور ادا کرنا ہی اس کا ازلہ ہے اور منکر کافر ہے۔ کیونکہ یہ اسلام کا رکن ہے تو رکن اسلام کا منکر کا فرومرتد ہوتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورۖ نے فرمایا: جو شخص اپنے مال و دولت کا حق ادا نہیں کرتا قیامت کے دن وہ اس حالت میں ہوگا کہ اس کے پہلو اور پیٹھ جہنم کے گرم پتھروں سے داغی جائے گی اور اس کا جسم وسیع کردیا جائے گا۔ اور جب کبھی اس کی حرارت میں کمی آئے گی تو اس کو بڑھا دیا جائے گا اور دن اس کے لئے طویل کردیا جائے گا۔ جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہوگی۔ یہاں تک کہ بندوں کے اعمال کا فیصلہ ہوگا پھر وہ جنت کی طرف راستہ اختیار کرے گا۔(مسلم شریف کتاب الزکواة) فرمان خداوند قدوس ہے۔ ترجمہ، ”اور جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اسے راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے انہیں درد ناک عذاب کی خوشخبری دے دو۔ جس دن ان کے مال کو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا اور اس سے ان کے پہلوئوں، پیشانیوں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا(اور کہا جائے گا) کہ یہ ہے جو کچھ تم نے جمع کیا تھا۔ اب اپنے جمع کردہ مال کا مزہ چکھو”(پارہ نمبر1سورة توبہ آیت نمبر35,34) فرمان نبوی علیہ الصلواة والسلام ہے کہ قیامت کے دن فقراء اغنیاء کے لئے ہلاکت کا باعث بنیں گے۔جب وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کہیں گے ”اے اللہ! انہوں نے ہمارے حقوق غصب کرکے ہم پر ظلم کیا تھا۔ رب فرمائے گا مجھے اپنی عزت وجلال کی قسم! آج میں تمہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دوں گا۔ اور انہیں اپنی رحمت سے دور کر دوں گا۔ پھر آپۖ نے یہ آیت کریمہ پڑھی:ترجمہ:انبیاء کے مال میں سائل اغنیاء کے مال میں مسائل اور فقیر کا ایک معین حق ہے۔(پارہ نمبر21المعارج25,24) نبی پاکۖ کا فرمان عالی شان ہے کہ معراج کی رات میرا گزر ایک ایک ایسی قوم پر ہوا جنہوں نے آگے پیچھے چیتھڑے لگائے ہوئے تھے۔ اور جہنم کا تھوہڑ، ایلوا اور بدبودار گھاس جانوروں کی طرح کھا رہے تھے۔ میں نے پوچھا جبریل یہ کون لوگ ہیں؟ جبریل نے عرض کی حضور یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مال کا صدقہ(زکواة) نہیں دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے نہیں بلکہ انہوں نے خود ہی اپنے آپ پر ظلم کیا ہے۔ تابعین کی ایک جماعت حضرت ابی حنان رضی اللہ عنہ کی زیارت کے لئے آئی جہاں لوگوں کو وہاں بیٹھے کچھ دیر ہوگئی تو حضرت ابی حنان رضی اللہ عنہ نے کہا: ہمارا ا یک ہمسایہ فوت ہوگیا ہے۔ چلو تعزیت کے لئے اس کے بھائی کے پاس چلیں محمد بن یوسف ایفریابی کہتے ہیں: ہم آپ کے ساتھ روانہ ہوگئے اور اس کے بھائی کے پاس پہنچے تو دیکھا وہ بہت آہ وبکا کھڑا تھا۔ ہم نے اسے کافی تسلیاں دیں، صبر کی تلقین کی مگر اس کی گر یہ وراری برابر جاری رہی ہم نے کہا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہر شخص کو آخر مر جانا ہے؟ وہ کہنے لگا یہ صحیح ہے مگر میں اپنے بھائی کے عذاب پر روتا ہوں۔ ہم نے پوچھا کیا اللہ تعالیٰ نے تمہیں غیب سے تمہارے بھائی کے عذاب کی خبر دی ہے؟ کہنے لگا نہیں بلکہ ہوایوں کو جب سب لوگ میرے بھائی کو دفن کرکے چل دیئے تو میں وہیں بیٹھا رہا میں نے اس کی قبر سے آواز سنی وہ کہہ رہا تھا آہ! وہ مجھے تنہا چھوڑ گئے اور میں عذاب میں مبتلا ہوں، میری نمازیں اور روزے کہاں گئے؟ مجھ سے برداشت نہ ہوسکا۔ میں نے اس کی قبر کھودنا شروع کردی تاکہ دیکھوں میرا بھائی کس حال میں ہے؟ جو نہی قبر کھلی! میں نے دیکھا اس کی قبر میں آگ دہک رہی ہے اور اسکی گردن میں آگ کا طوق پڑا ہوا ہے۔ مگر میں محبت میں دیوانہ وار آگے بڑھا اور طوق کو اتارنا چاہا جس کو ہاتھ لگاتے ہی میرا یہ ہاتھ انگلیوں سمیت جل گیا۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا واقعی اسکا ہاتھ بالکل سیاہ ہوچکا تھا۔ اس نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا میں نے اس کی قبر پر مٹی ڈالی اور واپس لوٹ آیا۔ اب اگر میں نہ روئوں تو اور کون روئے گا؟ ہم نے پوچھا تیرے بھائی کا کوئی ایسا کام بھی تھا جس کے باعث اسے یہ سزا ملی؟ اس نے کہا کہ وہ اپنے مال کی زکواة نہیں دیتا تھا۔ ہم بے ساختہ پکار اٹھے کہ یہ اس فرمان الٰہی کی تصدیق ہے، ترجمہ اور جوبخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہرگز اسے اپنے لئے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے۔عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہوگا۔(پارہ، آل عمران) محمد بن یوسف الضریابی فرماتے ہیں کہ ہم وہاں سے اٹھ کر سیدھے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں پہنچے اور انہیں سارا ماجرا سنایا اور دریافت کیا کہ یہودونصاریٰ مرتے ہیں مگر ان کے ساتھ کبھی ایسا واقعہ نہیں ہوا۔ فرمایا وہ دائمی عذاب میں ہیں۔ مسلمانوں کے اس طرح کے واقعات عبرت کیلئے وہ تمہیں دکھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حقائق کو سمجھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here