پچھلے دنوں ہیوسٹن میں ہیوسٹن کی شاعرہ کہنا غلط ہوگا ،پاکستان میں بھی جس کی شاعری کے چرچے عام ہیں اس لیے صرف ہیوسٹن کی شاعرہ کہنا یہ فرح اقبال کیساتھ نا انصافی ہوگی، فرح اقبال نے تھوڑے ہی عرصہ میں جو مقام حاصل کیا ہے وہ بہت کم لوگوں کو میسر آتا ہے، وہ خاتون ہوتے ہوئے بھی اس ہیوسٹن جیسے شہر میں جہاں ہمارے شعراء ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے ہوئے نظر آتے ہیں وہاں اس نے اپنے آپ کو منوا لیا اور ہیوسٹن کے وہ شعراء جن کا مقام بہت بڑا ہے ادب میں انہوں نے بھی فرح اقبال کی شاعری کو جس طرح سراہا ہے اس کیلئے ہمارے جوش ثانی جن کو میں نے یہ خطاب دیا تھا یعنی افضال فردوس جن کے پاس الفاظوں کا ذخیرہ موجود ہے، انہوں نے فرح اقبال کی شاعری کے بارے میں لکھا ہے اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کس طرح کے الفاظ استعمال کرتے ہیں، فرح اقبال کی شاعری کے سوتے اساطیر سے پھوٹتے اور زمان و مکان کی قید سے ماورا وقتوں، زمانوں اور صدیوں میں بہت ہیں ،ایک طرف اس کی غزل روایتی غزل کی زرخیز زمین سے پھوٹتی دکھائی دیتی ہے تو دوسری طرف اس کی نظمیں دھرتی سے اوپر اٹھ کر کائنات کے اسرار و رموز سے جُڑی ہوئی نظر آتی ہیں۔ افضال فردوس کے یہ الفاظ ہی فرح اقبال کیلئے کسی گوہر نایاب سے کم نہیں ہیں۔ فرح اقبال صرف شاعرہ ہی نہیں ہیں بلکہ ایک اینکر، قسمت کا حال جاننے والی خوبصورت شاعرہ ہے۔ وہ چاہتی تو اینکر ہی بنی رہتیں لیکن اس کے اندر ایک پینٹر بھی چُھپا ہوا ہے جس کو اس نے شاعری کی شکل دے کر خوبصورت بنا دیا ہے وہ ہمیشہ سیدھی اور سچی باتیں کرتی ہے اور وہ سامعین کے دل کو چُھو لیتی ہے ان کا مشاہدہ بھی حیرت انگیز ہے جو ان کے شعری مجموعوں میں ملتا ہے۔ وہ بڑے عوے نہیں کرتیں بلکہ خاموشی سے اپنا کام کرتی چلی جاتی ہیں وہ جس رستے پر گامزن ہے یقیناً وہ آنے والے چند سالوں میں ادب میں ایک نمایاں مقام حاصل کر لینگی جیسے وہ کہتی ہیں!
زمانہ جُھک گیا ہوتا اگر لہجہ بدل لیتے
مگر منزل نہیں ملتی اگر رستہ بدل لیتے
اس نے ہمت نہیں ہاری مخالفتوں کے باوجود وہ آگے ہی بڑھتی گئی اور اس نے وہ مقام حاصل کر لیا میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ عشرت آفریں کے بعد اگر کسی کو اتنی پذیرائی ملی ہے تو وہ فرح اقبال ہے میں پچھلے بائیس سالوں سے فرح اقبال کو دیکھ رہا ہوں جس طرح وہ میڈیا اور شاعری کو لے کر چل رہی ہیں وہ اس کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے کچھ لوگ اس کی کامیابی سے ناخوش بھی ہیں لیکن اس کی شاعری پر اُنگلی نہیں اُٹھا سکتے۔ ان کے پہلے مجموعے ”دل کے موسم” دوسرے مجموعے ”کوئی بھی رت ہو” کے بعد یہ ان کا تیسرا مجموعہ ”عجیب سی چُپ” نہ جانے انہوں نے ایسا نام کیوں رکھا وہ اپنے اندر کیا چھپائے بیٹھی ہیں انہیں چُپ سی لگ گئی ہے وہ تو ہر بات کا برملا اظہار کرتی ہیں بہرحال ایک دن وہ اس چُپ کو ختم کر دینگی ان کی تیسری کتاب کی محفل رونمائی پاکستان سینٹر میں منعقد کی گئی جبکہ وہ اس سے بڑے پروگرام کی مستحق تھیں ہمارے ہاں گانے بجانے کی محفلوں کو بڑے پیمانے پر کیا جاتا ہے مگر ادبی شخصیتوں کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے بخل سے کام لیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان سے آئے ہوئے ممتاز شاعر و ادیب غلام حسین اور پروفیسر ناصر علی سید ہیوسٹن سے افضال فردوس، مجید اختر، خالد خواجہ جیسے مستند شعراء نے شرکت کی اور فرح اقبال کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ ہمارے قونصل جنرل آفتاب چودھری کی ادبی معلومات سن کر بہت خوشی ہوئی اور انہوں نے بھی فرح اقبال کی شاعری کو خُوب سراہا جبکہ پاکستان سے آئے ہوئے غلام حسین اور پروفیسر ناصر علی سید نے تو فرح اقبال کے بارے میں یہ کہہ دیاکہ اس دور میں جو مقام فرح اقبال نے غزل کے علاوہ نظم میں بنایا ہے وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے نظم کے میدان میں وہ اس وقت واحد شاعرہ ہیں اور اسی طرح وہ لکھتی رہیں تو وہ بہت بڑی شاعرہ کہلانے کی حقدار ہونگی، ”عجیب سی چُپ” کو ہمیں کھلے دل سے قبول کرنا چاہیے اور فرح اقبال کی یہ کتاب شمالی امریکہ اور دنیا بھر کے ادب دوستوں کیلئے سال رواں کا بہترین تحفہ ہے۔ باسط جلیلی نے خوبصورت نظامت کے فرائض انجام دیئے، ڈاکٹر نجمہ نے بھی اقبال فرح کی شاعری پر خوبصورت مقالہ پڑھا۔
٭٭٭