پارلیمنٹ اور پارلیمانی نظام حکومت !!!

0
2
رمضان رانا
رمضان رانا

دنیا بھر میں زیادہ تر صدارتی، پارلیمانی اور شاہی نظام حکومت قائم ہے کہ جس میں ملک کا سربراہ صدر، بادشاہ اور خلیفہ یا سلطان ہوتا ہے جس کے بعض صدر اور بادشاہ کے روایتی عہدے رکھے گئے ہیں، پارلیمانی نظام حکومت میں عوام کی منتخب پارلیمنٹ بااختیار ہوتی ہے جو حکومت اور عدلیہ کو تشکیل دیتی ہے۔ پارلیمانی نظام حکومت کا مطلب اور مقصد عوام کی منتخب حکومت جو عوام کو جواب دہ ہوتی ہے۔ عوام کے حقوق کی ذمہ دار کہلاتی ہے جس کی عوام جب چاہیں بدل دیتے ہیں جس کے لئے عوام کے منتخب پارلیمنٹرین عدم اعتماد کا ووٹ استعمال کرتے ہیں جس سے حکومت بدل کر نئی حکومت وجود میں آجاتی ہے۔ پارلیمانی نظام حکومت میں زیادہ آزادی اور جمہوریت کا عنصر ہوتا ہے جو ہمارے وقت عوام کے سامنے جھکی رہتی ہے۔ پارلیمانی نظام میں ملکی اکائیوں اور صوبوں کو نمائندگی ملتی ہے۔ جس کے توازن کے لئے پارلیمنٹ کے ادارے سینٹ کو منتخب کیا جاتا ہے۔ جس کی تعداد تمام اکائیوں اور صوبوں کے برابر ہوتی ہے۔ اس لئے دنیا بھر میں پارلیمانی نظام حکومت زیادہ تر کامیاب کہلاتا ہے جس میں عوام کی شرکت زیادہ پائی جارہی ہے۔ خاص طور پر پارلیمانی نظام حکومت فیڈریشن یا یونین میں زیادہ کامیاب ہے جس میں لاتعداد اقوام، نسل، مذاہب پائے جاتے ہیںچونکہ پاکستان میں زیادہ تر باغی آئینی شکن جنرلوں کا دور بربریت رہا ہے جنہوں نے پانچ مرتبہ آئین منسوخ اور معطل کرے ملک پر صدارتی نظام حکومت نافذ رکھا جس میں باغی جنرل ایوب خان جنرل یحیٰی خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف اور ان کے سینکڑوں اتحادی جنرل اور سیاستدان پائے گئے ہیں جن کی بدولت آج پاکستان ایک مسائلستان بن چکا ہے جو مسلمان وقت خون میں لت پت نظر آتا ہے جس کے ادارے تباہ وبرباد ہوچکے ہیں۔ ظاہر ہے جب پاکستان کی بنیاد میں پہلے گورنر جنرلوں پھر فوجی جنرلوں کا کردار رہا ہے وہ ریاست کیسے اور کیوں قائم رہے گی جو ایک دفعہ ٹوٹ چکی ہے دوبارہ انتظار کیا جارہا ہے کہ یہاں خوفناک اور خطرناک فتنے وفساد جنم لے رہے ہیں۔ صوبوں کے حکمران ایک دوسرے پر چڑھائی کیئے ہوئے اس لئے پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت کو خطرات لاحق ہیں کہ کہیں پھر کوئی جنرل موجودہ پیدا کردہ افراتفری کا فائدہ اٹھا کر ملک پر قابض نہ ہوجائے۔ تاہم پاکستان میں موجودہ26ویں آئینی ترمیم کی مخالفت کی آڑ میں صدارتی نظام کے قیام کے لئے سازشیں برپا ہو رہی ہیں۔ جس میں پہلے اٹھارویں ترمیم کی مخالفت جاری تھی کہ اب موجودہ26ویں ترمیم کی مخالفت کی جا رہی ہے یہ جانتے ہوئے کہ آئین پاکستان پارلیمانی نظام حکومت کی ضمانت دیتا ہے کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت ہوگا جو ماضی میں صدارتی ننظام بزور طاقت نافذ کیا گیا تھا۔ وہ غیر قانونی اور غیر آئینی تھا جس کی موجودہ آئین پاکستان اجازت نہیں دیتا ہے۔ جب پاکستان میں پارلیمانی نظام کا ذکر ہوتا ہے تو اس کا مطلب ملکی حکومت اور عدلیہ کا وجود بھی پارلیمنٹ کے ذریعے آئے گا۔ جس میں پارلیمنٹ کے ہاتھوں حکومت کا قیام کو جائیز سمجھا جاتا ہے مگر عدلیہ کے چیف جسٹس کی پارلیمنٹ کے ہاتھوں نامزدگی قابل قبول نہیں ہے جس کا شوروغل مچا ہوا ہے۔ جبکہ دنیا بھر کے جمہوری ملکوں میں ججوں کی نامزدگی صدارتی نظام میں صدر نامزد کرتا ہے اور پارلیمنٹ کنفرم کرتی ہے مگر پارلیمانی نظام حکومت میں ججوں کی نامزدگی پارلیمنٹ کرتی ہے جس کو صدر کنفرم کرتا ہے۔ بہرحال پاکستان میں جمہوریت کی جنگ لڑی جارہی ہے جس کو نسلی، لسانی فرقہ واریتی میں تبدیل کیا جارہا ہے تاکہ دنیا کے مسلم دنیا کے واحد عالمی طاقت ملک پاکستان میں جمہوریت قائم نہ ہوجائے جس کے تمام بے قابو ادارے دشمن ہیں اس لئے کوئی بعید نہیں ہے کہ پاکستان میں موجودہ کشمکش میں پھر کوئی جنرل مہم جوئی برپا کرکے پورے نظام کو تہس نہس نہ کر ڈالے۔ جن کے منہ میں خون لگا ہوا ہے جو کھ بھی کر سکتے ہیں اس لئے پاکستان میں پارلیمنٹ آزاد اور خودمختار ہوگی تو باقی تمام ادارے مضبوط ہونگے۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here