ٹیکس اہداف میں ناکامی پر آئی ایم ایف کا مطالبہ!!!

0
5

رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ کے دوران ٹیکس اہداف کے حصول میں ناکامی کے بعد بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)نے پاکستان سے محصولات میں اضافے کے لیے منی بجٹ سمیت مزید اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ساتھ ہی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے ٹیکس ہدف پر نظرثانی کی پاکستان کی درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا کہنا ہے کہ حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ سے ٹیکس ہدف پر نظرثانی کے لیے ورچوئل میٹنگ میں درخواست کی تھی لیکن قرض دینے والے ادارے نے درخواست مسترد کردی۔آئی ایم ایف کے تازہ فیصلے سے ملک کو ریونیو کی کمی کے پیش نظر بیل آوٹ پیکج کی دوسری قسط حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اس لیے حکومت آنے والے مہینوں میں شارٹ فال کا حساب لگا کر ریونیو بڑھانے کے لیے اقدامات کر سکتی ہے۔ آئی ایم ایف معاہدے کے متعلق کئی ماہرین پہلے ہی سنگین چیلنجوں کا حامل قرار دیتے رہے ہیں۔ جس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ دونوں اطراف کے مذاکرات کاروں نے اسے بعض سخت گیر شرائط شامل کر کے تیار کیا گیا تھا۔معترض حلقے کہتے رہے ہیں کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ ایک غلط معاہدے کو حتمی شکل دی ہے، جو جلد ہی پٹڑی سے اتر سکتا ہے۔ جی ڈی پی کی نمو کے علاوہ، جو کہ 3 فیصد کے مفروضے کی حد میں رہتی ہے، دیگر تین خود مختار ترقی کے اشاریئے افراط زر، درآمدات اور بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ پہلی سہ ماہی میں ہدفسے نیچے رہے ہیں ۔12.9% کی متوقع افراط زر کی شرح کے مقابلے میں، پہلی سہ ماہی میں اوسط مہنگائی 9.2% رہی۔ 13 ٹریلین روپے کے ٹیکس ہدف تک پہنچنے کے لیے تقریبا 17 فیصد درآمدی نمو بروئے کار لائی گئی تھی لیکن طلب میں کمی کی وجہ سے پہلی سہ ماہی میں درآمدات میں صرف 8 فیصد اضافہ ہوا۔ بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ کی نمو بھی پہلی سہ ماہی میں 3.5 فیصد کے مفروضے کے مقابلے میں 1.3 فیصد رہی۔ایف بی آر نے پہلی سہ ماہی میں پہلے ہی 90 ارب روپے کے ٹیکس شارٹ فال کو برقرار رکھا ہے اور ایک اندرونی تشخیص سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیکس کا شارٹ فال اس سال دسمبر تک 350 ارب روپے سے 400 ارب روپے تک بڑھ سکتا ہے۔پہلی سہ ماہی کے نتائج اور دوسری سہ ماہی کے ابتدائی آثار دیکھنے کے بعد یا تو حکومت کو مالیاتی فریم ورک کے لیے استعمال کیے گئے مفروضوں کو دوبارہ آزمانا پڑے گا یا پھر غیر حقیقی اہداف کا پیچھا کرتے رہنا ہوگا۔اس امر کا خدشہ موجود ہے کہ ٹیکس کا ہدف حاصل نہ ہونے کی صورت میں آئی ایم ایف نے جن ہنگامی اقدامات کو حتمی شکل دی ہے اس سے پاکستان کی معاشی ترقی کا مزید دم گھٹ جائے گا اور ٹیکس دہندگان کی اکثریت کی آمدنی میں کمی آئے گی۔ موجودہ صورت حال آئی ایم ایف کے معاہدے کے ایک جامع جائزہ کو ضروری قرار دیتی ہے، ایک منی بجٹ متعدد عوامل کی وجہ سے غیر حقیقی ہدف کو حاصل کرنے میں مدد نہیں کر سکتا۔حقیقی ٹیکس ریفنڈز کو روکنے اور غیر ضروری ایڈوانس لے کر محصولات کو بڑھانے کی حکومتی کوششوں سے بھی ماہانہ ٹیکس کے اہداف حاصل کرنے میں مدد نہیں ملی۔سرکاری حلقوں میں ایک رائے یہ ہے کہ شرح سود میں کمی سے ہونے والی کسی بھی بچت کو ایف بی آر کے ٹیکس اہداف کے مقابلے میں پورا کیا جانا چاہیے۔ حکومت نے رواں مالی سال کے لیے 17.5 فیصد کی اوسط شرح سود کی بنیاد پر قرض کی سروسز کے لیے 9.8 ٹریلین روپے مختص کیے ہیں۔ تاہم، افراط زر میں توقع سے زیادہ تیزی سے سست روی کی وجہ سے، شرح سود میں بڑی کمی ہو سکتی ہے۔معاشی ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر دستخط کے وقت غلط مفروضوں کی وجہ سے، ایف بی آر کو خدشہ ہے کہ اسے کم از کم 254 ارب روپے کا مزید نقصان ہو سکتا ہے۔عوامی سطح پر دستیاب اشاریئے بتاتے ہیں کہ مقامی سطح پر سیلز ٹیکس اور ایکسائز ڈیوٹی کی کم وصولی کی وجہ سے ایف بی آر کو دوبارہ 125 ارب روپے کے اضافی شارٹ فال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ درآمدی کمپریشن کے اثرات کا تخمینہ بھی تمام درآمدی ٹیکسوں کے حساب سے 320 ارب روپے ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں بڑھوتری سے عمومی طور پر معیشت کے صحتمند ہونے کا اندازہ کیا جاتا ہے۔حکومت مہنگائی میں کمی کو اپنا کارنامہ بتاتی رہی ہے ۔چند ہفتے قبل سرکار نے بتایا کہ 23 ہزار نئے ٹیکس فائلر نظام کا حصہ بنے ہیں۔مسئلہ مگر یہ ہے کہ بڑے کاروباری اداروں کے مالکان پارلیمنٹ کا حصہ ہیں ۔جو لوگ پارلیمنٹ میں نہیں جاتے وہ ایف بی آر اور سیاسی حکومت کو کسی نہ کسی طرح قابو میں رکھتے ہیں۔اس حالت میں حکومت عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے کم آمدن والے ٹیکس دہندگان پر بوجھ بڑھانے کا وعدہ کر لیتی ہے۔اس بار کاروبار بند ہونے، زراعت کا نقصان ہونے اور اشرافیہ کو بچانے کی وجہ سے ٹیکس اہداف کا حصول مشکل ہو رہا ہے۔حکومت نے سیاسی استحکام لانے اور سادگی لانے و کفایت شعاری کے منصوبے پر بھی عمل نہیں کیا جس سے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر اثر پڑ رہا ہے۔حکومت صورتحال سے نکلنے کے لئے منی بجٹ کی طرف جاتی ہے تو ایک بار پھر تنخوا دار طبقہ کے لئے مسائل پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here