پاکستان میں عوامی پارٹیوں کا فقدان !!!

0
6
رمضان رانا
رمضان رانا

آج پاکستان میں عوامی پارٹیوں کا شدید فقدان پیدا ہوچکا ہے جس کے دشمن جنرل گزرے ہیں جنہوں نے پارٹیوں کو عوامی ایجنڈے دینے کی بجائے آپس میں لڑائے رکھا ہے جن کو ایک دوسرے سے انتقام لینے سے فرصت نہیں ہے اگر آج کی پی پی پی پر نظر دوڑائیں تو وہ مکمل طور پر سندھ کے وڈیروں تک محدود رہ چکی ہے۔ مسلم لیگ نون تاجروں کا ٹولہ بن چکا ہے۔ جو صرف تاجروں کا بھلا چاہتی ہے پی ٹی آئی اعلیٰ کلاس کے جھتے بازوں کا گروہ ہے جو مہمان وقت دنیا بھر کی اصطلاحوں کو استعمال کے ایک ایسا انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے جس میں کوئی تاحیات سلطانیت، حکومیت، بادشاہت نما کے صدارتی نظام قائم ہوجائے جس کے لیے اس پارٹی کے سربراہ عمران خان نے سابقہ سلطنت عثمانیہ کے خلیفوں پر بنی ہوئی فلموں اور ڈراموں سے عوام کے ذہنوں کو بدلنے کی کوشش کی تھی۔جس میں وہ بری طرح ناکام ہوئی جو انکا یہ خواب ادوارہ رہ گیا ہے۔ کیونکہ پاکستان کے عوام صدیوں سے امیروں، نوابوں، راجوں، جاگیرداروں، وڈیروں کے خلاف جدوجہد کرتے چلے آرہے ہیں۔اس لئے پاکستان میں کسی قسم کی آمریت نما نظام حکومت برداشت نہیں ہوگی۔ تاہم ماضی میں پاکستان کی عوامی قیادت آئی جس میں شیخ مجیب، ولی خان، بھٹو، فاطمہ جناح، اصغر خان، بینظیر بھٹو، نوازشریف، یا پھر آج کی مریم نواز پائی جارہی ہے جن کے اندر عوامی جدوجہد کو دیکھا گیا ہے کہ شیخ مجیب کے پلٹن میدان کے جلسے اور جلوس تاریخی منعقد ہوا کرتے تھے۔ ولی خان کے جلسوں میں لاکھوں لوگ شریک ہوا کرتے تھے۔ بھٹو اور اوزخان کے جلسے اور جلوسوں میں بیس بیس لاکھ لوگ شریک ہوا کرتے تھے جبکہ بینظیر بھٹو شہید کی آمد پر کراچی میں35لاکھ عوام جمع ہوئے تھے۔ مادر ملت کے جلسوں میں بھی لاکھوں لوگوں نے شرکت کی تھی۔ جس کی برصغیر میں مثال نہیں ملتی ہے۔ برعکس آج بڑے بڑے جلسے میں دس ہزار اور کم ازکم چند سو اور ہزار تک محدود رہ گئے ہیں۔ ماضی کسی جلسے گاہوں پر نظر دواڑئیں تو کراچی کا نشتر پارک لالوکھیت، آرام باغ، لیاری گرائونڈ، لاہور کا بھاٹی گیٹ موچی دروازہ، راولپنڈی کا لیاقت باغ اور ڈھاکہ کا پلٹن میدان لائل پور کا دھوبی گھاٹ اور جلسہ گاہیں مشہور تھیں جن کا آج نام ونشان مٹ چکا ہے۔ جن کی جگہ اب ڈیفنس ہائوسنگ اور ڈی چوک لے چکا ہے جن میں صرف اور صرف امر آگے بچے اور بچیاں جمع ہو کر ناچتے کودتے نظر آتے ہیں جن کا عوامی جدوجہد سے دور دور کا واسطہ نہیں ہوتا ہے۔ ناہی پاکستان کے عوام کے مسائل سے تعلق ہوتا ہے اس لیے پاکستان میں عوامی پارٹیوں کا فقدان پیدا ہوچکا ہے جو عوامی تحریکوں سے ملکی مسائل پر قابو پائے۔ ظاہر ہے پاکستان میں عوامی جدوجہد کے لیے جب تک مزدوروں، کسانوں، ہاریوں، غریبوں، بے بسوں اور بے اختیاروں کو شامل نہیں کیا جائے گا تب تک ملک میں کوئی بھی جہوری نظام قائم نہیں ہوسکتا ہے ناہی عوامی مسائل حل ہونگے۔ کیونکہ پاکستان میں دولت سمٹ کر مخصوص طبقے تک محدود ہوچکی ہے۔ جس میں جاگیردار، وڈیرے، جنرل، جج، بیوروکریٹ طبقہ لطف اندوز ہورہا ہے۔ اگر پاکستان کے وڈیروں، مشیروں اہلکاروں پرغور کریں تو ایسا لگتا ہے کے پاکستان پر بادشاہت کا دور دورہ ہے۔جس کے شہزادے اور شہزادیاں اپنی لاحدود دولت سے مزے کر رہی ہیں جبکہ پاکستان کی عوام بھوک ننگ اور اخلاص کی شکار ہے۔ بہرحال پاکستان میں ایک عوامی پارٹی کی سخت ضرورت ہے۔ جو بھارتی عام آدمی پارٹی کی طرح انقلاب برپا کرے جس کے اقتدار پر قابض روایتی پارٹیوں کو ناکوں چنے چبا دیئے ہیں، اس لیے عوام کو بڑی بڑی کوٹھیوں، بنگلوں، جاگیروں، فارم ہائوسوں، بنی گالوں، بلاول ہائوسوں اور جاتی امرآں کی بجائے اپنے گلی کوچوں کے اندر قیادت پیدا کرنا ہوگی جو آپ کے مسائل سے آگاہ ہونگے اور آپ کے صدیوں درپیش مسائل حل کریں گے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here