تمثیلہ لطیف، غمِ ہجراں کی شاعرہ!!!

0
6
ڈاکٹر مقصود جعفری
ڈاکٹر مقصود جعفری

تمثیلہ لطیف کا تعلق راولپنڈی شہر سے ہے، آپ کی شاعری کی کتاب کوئی ہمسفر نہیں ہے کا دوسرا ایڈیشن شائع ہو رہا ہے۔ آپ نے اس کا دیباچہ لکھنے کی فرمائش کی ہے۔ میں نے آپ کی شاعری کو بصد ذوق و شوق پڑھا۔ جیسے آپ ایک سادہ دل خاتون ہیں ویسے ہی آپ کی شاعری سادہ و سلیس ہے اور آپ کی شخصیت نفیس ہے۔ آپ کی شاعری ادق پسندی سے دور، جذبات سے بھرپور اور شعل طور ہے۔ احساسات میں شدت اور افکار میں جدت ہے۔ دردِ ہجراں کا بیان اور غم دل کی داستان ہے۔ آپ کے اشعار میں خواب، آنسو، حسرت، غم اور حسرت کے الفاظ بکثرت ملتے ہیں جو دردِ دروں کی نمایندگی کرتے ہیں۔ اسلوب میں روایت کا رنگ اور جذبات میں آہوں کا آہنگ نمایاں ہے۔ کہیں کہیں زندگی کے مسائل پر بھی اشعار مل جاتے ہیں مگر مجموعی طور پر آپ کی شاعری اس کونج کی مانند ہے جو کارواں سے بچھڑ گئی ہو۔ یہ شاعری ایک آہِ دلسوز ہے۔ گویا
تم جو گل کر گئے ایک تمنا کا چراغ
محفِ زیست کی سب شمعیں بجھا دیں میں نے
شاعرہ زخمِ غمِ جاناں سے چور چور اور زندانِ یادِ ماضی میں محصور ہے۔آپ کا خوابِ محبت خوابِ پریشاں بن گیا۔ آپ خوابوں کی شاعرہ ہیں۔ احمد فراز نے کہا تھا!
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
احمد فراز کی طرح تمثیلہ لطیف بھی خوابوں کے سہارے زندہ ہیں ۔علاجِ غمِ ہجراں اختر انصاری دہلوی کے اِس شعر میں ہے!
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
علاجِ غمِ ہجراں نہ ہی چارہ گر اور نہ ہی طبیبِ حاذق کے پاس ہے۔ بقولِ امیر خسرو!
از سرِ بالینِ من بر خیز اے ناداں طبیب
دردمنِ عشق را دارو بجز دیدار نیست
تمثیلہ لطیف کی شاعری آتشِ دروں کی شاعری ہے۔ فراقِ دوست نے ان کی زندگی کو تماشا اور غبارِ راہ بنا دیا ہے۔ کہتی ہیں
بچھڑ کے تجھ سے تماشا بنی ہے میری حیات
تمہارے بعد کہیں میری آبرو ہی نہیں
غبارِ راہ ہوئی اِس لیے بھی تمثیلہ
اسے تو پھولنے پھلنے کی آرزو ہی نہیں
یہ غبارِراہ در اصل غبارِ راہِ زندگی ہوتا ہے۔غمِ جاناں میں جہاں کئی عوامل شامل ہوتے ہیں وہاں زندگی کی مشکلات اور مسائل کا بھی حصہ ہوتا ہے۔ بیدل دہلوی نے خوب کہا تھا!
ہر کجا رفتم غبارِ زندگی در پیش بود
یا رب ایں خاکِ پریشاں از کجا برداشتم
آپ بنیادی طور پر غزل کی شاعرہ ہیں،آپ کی کتاب میں چند نظمیں بھی ہیں اور وہ بھی غمِ ہجراں کی عکاس ہیں۔ ایک یہی تمنا، آج کتنی تنہا ہوں، دوریاں بڑھاتے ہیں، ہو گئے بے وفا، محبت کیسے ہوتی ہے،التجا،دل کے آنگن میں اِن کی نمائندہ منظومات ہیں۔اِن نظموں کے عنوانات ہی بتاتے ہیں کہ شاعرہ قفسِ ہجراں میں مقید زخمی طائر ِ بے بال و پر کی طرح لرزیدہ و ترسیدہ و رنجیدہ ہے اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ آپ کی شاعری دل کی شاعری ہے از دل خیزد و بر دل ریزد والا معاملہ ہے۔اسی لئے دردِ دروں کااظہار یوں کرتی ہیں
ابرِ کرم اِدھر بھی کبھی ٹوٹ کر برس
صحرا کی تشنگی ہے مرے کنجِ ذات میں
صحرا میں دربدری اور تشنگی شاعری میں بربادی اور خستگی کی علامت ہے۔ چمن آبادی اور صحرا درماندگی کے استعارے ہیں۔بقولِ شاعر
ما و مجنوں ہم سبق بودیم در ایوانِ عشق
او بہ صحرا رفت و ما در کوچہ جا رسوا شدیم
ایک اور غزل میں کہتی ہیں
زندگی چیخ بن گئی میری
درد ایسے الجھ پڑا مجھ سے
جو آگ جس کے پاس ہے، وہ اس کے پاس ہے
اوروں کی آگ میں یہاں جلتا نہیں کوئی
گو آپ کی شاعری غمِ ہجراں کا بیاں ہے لیکن کہیں کہیں غمِ دوراں کی بھی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔ کہتی ہیں
غمِ جاناں، غمِ زمانہ کو
اپنے اندر ہی ہم سموتے ہیں
آپ کا جذب دل منزلِ زندگی کی طرف گامزن ہے۔ عاشقی ناکام سہی، زندگی ناکام نہ ہو۔ عاشقی میں ہار بھی عاشقِ صادق کی جیت ہوتی ہے۔ بقولِ فیض احمد فیض
یہ بازی عشق کی بازی ہے، جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں
تمثیلہ لطیف عشق کی اِس بازی میں ہار کر بھی جیت گئی ہیں کیونکہ ایسے دلدوز و دلپذیر اشعار ان کی ادبی جیت ہے جو انہیں زند جاوید کے گئے ہیں۔ حافظ شیرازی نے کہا تھا
ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جرید عالم دوامِ ما
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here