انصار الرحمن
ہر شخص کو خواہ وہ کوئی بھی ہو اللہ رب العالمین پر ایسا ایمان لانا چاہیے جیسے کہ اس کا حق ہے ۔ اسکا تعلق رب العالمین کے ساتھ انتہائی مضبوط ہو اور وہ کسی بھی طرح اسکے احکامات کی روگردانی کرنے کا تصور تک نہ کرتا ہو ۔ اسکی زندگی کا ہر پہلو اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکامات اورجناب رسول اکرم ﷺ کے ارشادات کے مطابق ہو ۔ کوئی بھی عمل ایسا نہ ہو جو احکامات کے خلاف ہو ۔ اسکا اٹھنا، بیٹھنا ، چلنا پھر نااور سونا جاگنا سب عبادت بن جاتا ہے اگر وہ احکامات پر خلوص دل سے عمل کرتا ہے ۔ دنیا نام ہے ایسے اعمال کا جو حق تعالیٰ کی یاد سے لوگوں کو غافل کردے ۔ بیوی بچوں ، اور رشتہ داروں پڑوسیوں سے تعلقات اور کاروباری مصروفیات اگر ایسی نہ ہوں جو کسی کو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ اور جناب رسول اکرم ﷺ کے احکامات سے غافل کرنے کا سبب نہ بنیں تو وہ دنیا میں دین بن جاتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کی زندگی ہر قدم پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی نصرت وچاہت کا پر تو بن جاتی ہے ، سارے تعلقات ختم کرکے سارے فائض اور واجبات سے منہ موڑ کر تسبیح لے کر ایک کونے میں بیٹھنے کا نام اسلام نہیں ۔ یہ صرف اور صرف رہبانیت ہے ۔اور اسلام میں رہبانیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ اسلام نام ہے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا ۔ حج یا عمرہ کرلینا، داڑھی رکھ لینا اور ان کو ہی اسلام کل سمجھ لینا بہت بڑی بھول ہے ۔ سچا مسلمان وہ ہے جو اپنی مندگی کے ہر ہر قدم پر احکامات پر پابندی سے عمل کرتا ہے اور ہر طرح عاجزی وفروتنی اختیار کرتا ہے اور اللہ رب العالمین کی مقرر کردہ حدود میں رہ کر اسکے حکامات پر عمل کرتا ہے اور جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی پیروی کرتا ہے ۔ جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم میں سے کوئی بھی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اسکی خواہشات میری لا ئی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہو جائیں ۔ اس بات کے متعلق اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اے محمد تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں تمہیں فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں پھر تم جو فیصلہ بھی کرو اس اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ سربہ تسلیم کرلیں ۔ اللہ رب العالمین اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہر شخص کا لازمی فرض ہے ۔ اسکے عقائد بالکل صحیح ہوں ، وہ کسی بھی طرح شرک نہ کرتا ہو اور نہ ہی کسی کی توہین کا مرتک ب ہوتا ہو ۔ گھریلو زندگی کی ابتدا میاں بیوی کے تعلقات سے ہوتی ہے ان کا ہر عمل عزت واحترام اور عافیت کا مظہر ہو ، کوئی بھی دوسرے کی توہین نہ کرتا ہو ، بدتمیزی سے پیش نہ آتا ہو ، میاں بیوی اگر ایک دوسرے کااحترام کریں گے عزت کریں گے تو گھر خوشیوں کا گہوارہ بن جائے گا ، بچوں کی تربیت پوری توجہ اور ذمہ داری سے کرنی چاہیے ۔ ایسی کوئی بات ہر گز نہیں ہو جو ان کے بدتمیز اور نالائق بننے کا سبب بنے ، میاں بیوی میں اگر بات بات پر جھگڑے ہوتے رہیں گے چیخ پکار ہوتی رہے گی تو گھر کا ماحول تباہ وبرباد ہو جائے گا۔ بچے بدتمیز ہو جائیں گے ، کسی کی بھی نہیں سنیں گے ۔ احترام اور عزت تو دور کی بات ہے ۔ (جاری ہے)
ہر مسلمان کا یہ لازمی فرض ہے کہ اسکا اٹھنا، بیٹھنا اور میل ملاقات ایسے لوگوں سے ہو جن سے تعلقات میں اچھائیوں ، حوبیوں اور بصیرت کا اضافہ ہوتا ہے ، وہ ہر ممکن طریقہ سے برے اور شیطان صفت لوگوں سے بچے رہیں ۔ دور رہیں، بے شرمی وبے حیائی اور فحاشی کی مجلسوں میں ہر گز ہر گز شرکت نہ کریں ورنہ اسکا نتیجہ پوری نسل کو آلودگیوں میں لے ڈوبے گا اگر والدیا یا ساس سسر ساتھ رہتے ہو تو ان کااحترام کریں ، عزت کریں، ان کے تجربہ اور مشاہدہ سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں ۔ اگر کبھی ان کی کوئی بات ناگوار گزرے بری لگے تو ہر گز ہرگز چیخ پکار اور بدتمیزی کو نہ اپنائیں۔ہمارا سلوک نیکی اور خلوص پر مبنی ہونا چاہیے ، اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے ، اور تمہارے پروردگار نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو ، اگر والدین میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے پاس بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو ، بلکہ ان سے عزت سے بات کیا کرو ۔ اور ان کے ساتھ محبت کا برتاﺅ کرتے ہوئے ان کے سامنے اپنے آپ کو انکساری سے جھکاﺅ اور یہ دعا کرو کہ ”یا رب جس طرح انہوں نے میرے بچپن میں مجھے پالا ہے آپ بھی ان کے ساتھ رحمت کا معاملہ کیجئے “۔
جناب رسول اکرم ﷺ نے یہ فرمایا ہے کہ آدمی اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرے ۔ ایک اور موقعہ پر فرمایا کہ سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے انتقال کے بعد ان کے دوستوں کے ساتھ صلہ رحمی کرے ۔ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ نیک سلوک کرو اور رشتوں کو نہ توڑو ورنہ اللہ رب العلمین ہمیں بے نور کردے گا ۔ سرکار نے ایک مرتبہ فرمایا کہ مجھ کو زیادہ محبوب اور آخرت میں مجھے قریب وہ شخص ہوگا جس کے اخلاق اچھے ہوں گے اور تم میں مجھ کو زیادہ برا لگنے والا اور آخرت میں مجھ سے زیادہ دور رہنے والاوہ شخص ہے جس کے اخلاق اچھے نہ ہوں ۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ایمان والوں میں زیادہ کامل ایمان والے وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق زیادہ اچھے ہوں اولاد ، اللہ تبارک وتعالیٰ کی بڑی نعمت ہے وہ اپنے ماں باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور زندگی کا سرور ہے ۔ ان کی وجہ سے زندہ رہنے کا لطف قائم رہتا ہے ۔ ان سے توقعات اور امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں اسکی برکت سے رزق ملتا ہے اور رحمت کا نزول ہوتا ہے لیکن یہ سب کچھ اسی وقت ہوگا جب اولاد کی تربیت اچھی اور نیک ہو ، سمجھدار والدین اپنے بچوں کے ساتھ اپنی اولاد کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے ہیں ہر وقت کی چیخ وپکار اور توہین آمیز سلوک ان کو بلا شبہ گستاخ اور بدتمیز بنا دیتا ہے ۔ اس لیے ان کے ساتھ برتاﺅ دوستوں اور خیر خواہوں کا سا ہوناچاہیے ۔ ہم ہر طرح ان کا خیال رکھیں اور یہ اس بات کا بھی خیال کریں کہ اپنی نا سمجھی اور نہ تجربہ کاری کی وجہ سے وہ غلط اور برے بچوں میں نہ اٹھنے بیٹھنے لگیں ۔ برائی بہت جلدی اثر کرتی ہے اس لیے اس معاملہ میں بہت چوکنا رہنا چاہیے ۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو کم عمری ہی میں دین کی طرف راغب کریں ۔ نماز پڑھتے وقت ان کو ساتھ کھڑا کیا کریں اور وضو کرنے کا طریقہ بھی ان کو رفتہ رفتہ سکھا دیں ۔ اور جب وہ سات سال کے ہو جائیں تو نماز پڑھنے کی تاکید ضرور کریں والدین کے لیے یہ بھی بہت ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کے ساتھ برابری کا سلوک کریںاور کسی بھی معاملہ میں ایک کو دوسرے پر فوقیت نہ دیں یہ لازمی شے ہے جو بچے اپنے اور بھائیوں اور بہنوں کے درمیان مساوات اور برابری محسوس کرے گا ، اسکی پرورش صحیح ہوگی اور وہ کسی کے ساتھ حسد اور کینہ نہیں رکھے گا ۔ اچھے تعلقات اور حسن سلوک کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اسکی وجہ سے نہ صرف رشتہ دار خواہ وہ قریبی ہوں یا دور کے بلکہ پڑوسی بھی اچھے تعلقات اور اپنائیت کے مرہون منت ہوجاتے ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زندگیوں کو اخلاق حسنہ کا محور بنالیں ۔ اٹھتے بیٹھتے ، سوتے جاگتے ، چلتے پھرتے ایسی کوئی بات ہر گز ہرگز نہ کریں جو کہ غصہ ، نفرت ، حقارت اور کسی کی توہین کا سبب بنے اور ہمارے دلوں میں کسی کے لیے بھی بغض ، حسد، کینہ اور باطنی نہ ہو ، ہم جس شخص سے بھی بات کریں عزت اور احترام سے بات کریں تاکہ ہم سے بات کرنے والا ہم کو اپنا ہمدرد اور خیر حواہ سمجھے اور ہم سے بات کرتے ہوئے خوشی محسوس کرے ۔ ان ہی باتوں کا تذکرہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جگہ جگہ قرآن شریف میں کیا ہے اور یہی پیغام ہے جناب رسول اکرم ﷺ کی حیات طیبہ کا ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے دلوں کو حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات سے منور کردیں اور ہم کو اپنے دوستوں اور چاہنے والوں میں شامل کردیں ۔ ہماری کتاب سکون وصحت کا مطالعہ ضرور کریں اس سے معلومات میں بہت اضافہ ہو گا ۔