ترجیحاتِ پاکستان!!!

0
498

مفتی عبدالرحمن قمر،نیویارک

تیس برس پہلے جب پاکستان چھوڑا تھا‘ بہتر حالت میں چھوڑا تھا۔ ترجیحات بہرطور اسلامی تھیں جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام کے قریب بر تھیں۔ اب ایک ہفتے سے لاہور میں ہوں۔ لبرل کاریگر لوگوں نے انڈیا کے ساتھ مل کر پاکستان کو ثقافتی یلغار سے فتح کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ وہ لگتا ہے شرمندئہ تعبیر ہورہا ہے چونکہ انڈیا جان گیا تھا فوجی قوت کے ساتھ پاکستان کو تسخیر کرنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے تو انہوں نے پاکستان اور پاکستانیت کے اندرونی دشمن کے ساتھ مل کر کچھ ٹی وی چینلز کو فنڈ کیا اور اس کے ذریعے بے حیائی‘ بے شرمی کلچر کے نام پر پھیلانی شروع کی اور اب چینلوں نے اپنے سب چینل کھول کر سب فنڈنگ کرکے اس بے حیائی کے کام پر لگا دیا ہے۔ آج صبح نماز فجر اور پارک کی سیر کے بعد گھر واپس آیا۔ چائے کا ایک کپ بنایا اور خبریں سننے کیلئے ٹی وی کھولا۔ غالباً نمازی پرہیزی حاجی عبدالرزاق مرحوم کا چینل تھا۔ ٹی وی کھلتے ہی جو منظر تھا‘ تین خواتین تھیں‘ جن میں درمیان والی ہوسٹ نے غالباً بوتیک کا فیشن روشناس کرانے کیلئے جو لباس پہن رکھا تھا الامان الحفیظ۔ صبح سات بجے اللہ و رسول کے نام سے دن شروع کرنے کا وقت تھا اور اس نے دو ساتھی دوسرے چینل کی ہوسٹس کو مہمان بمع چھوٹی اپنی بچیوں کے بلایا ہوا تھا اور وہ خواتین بتا رہی تھیں کہ یہ تین تین سال کی بچیاں ہیں۔ آپ ان کے کتھک ڈانس کے سٹیپ دیکھئے کس خوبصورتی سے یہ ڈانس کررہی ہیں۔ مجھے یاد ہے اسلام آباد میں پی ٹی وی کا مارننگ شو شروع ہوا تھا۔ اللہ بخشے عون محمد رضوی تھے۔ ہم نے قرآن پاک کی تعلیم سے صبح سات بجے شروع کیا جس میں بیس بائیس دن میں نے مسلسل تلاوت کرکے آغاز کیا۔ ہر آیت ربنا سے شروع کی تھی اور پھر بچوں کو قرآنی قاعدہ پڑھانا شروع کیا اور یوں ہماری صبح شروع ہوتی تھی۔ نماز پڑھ کر جب باہر نکلا تو کرکٹ بخار میں مبتلا بچے سامنے سے گزرے‘ یہی کہ چودہ‘ پندرہ سال کے بچے تھے۔ کہہ رہے ھے یار آج ہم نے بڑی مہنگی ٹکٹ خریدی ہے‘ پانچ ہزار روپے کی۔ میرے دل میں یہ بات آئی ہے کہ میں نے سیف علی خان جیسے بال بنانے ہیں پارلر جا کر بال کھڑے کراﺅں گا۔ دوسرے نے کہا نہیں یار فلاں ایکٹر جیسے بناﺅں گا۔ تیسرے نے کہا میرا گھر آگیا‘ وہ نکل گئے۔ آپ اندازہ کریں‘ میچ شام کو ہے‘ صبح کے چھ بج رہے ہیں۔ مسجد آنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ صبح صبح جاگ کر پلاننگ شام کی ہورہی ہے۔ اللہ اکبر! ہندو ذہنیت نے ڈانس جو ان کے مذہب کا حصہ ہے۔ انہوں نے خاموش طریقے سے ہمارے اندر پیوست کردیا ہے۔ ایک ایک گھنٹے کا پروگرام ایکٹروں‘ ایکٹرسوں اور گویوں کے مرنے کے بعد سالانہ بنیادوں پر نشر کئے جارہے ہیں تاکہ بچوں کو بتایا جائے کہ مرنے کے بعد اگر زندہ رہنا ہے تو گانا سیکھئے‘ ڈانس سیکھئے‘ ایکٹنگ سیکھئے۔ اگر تم استاد‘ پروفیسر‘ ڈاکٹر بن گئے‘ انجینئر بن گئے‘ عالم اور مفتی بن گئے تو مرنے کے بعد تمہارے لئے کوئی پروگرام نہیں ہوگا۔ تمہارا نشان مٹ جائے گا کیونکہ پاکستان کی ترجیحات بدل گئی ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here