جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو
آج جب میں اپنا کالم لکھنے بیٹھا ہوں تو مجھے مرحوم شاعر محسن بھوپالی کا شعر شدت سے یاد آرہا ہے:
نیرنگئی سیاست دوراں تو دیکھئے!
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
پاکستان کی سیاست پر مرحوم شاعر نے کم از کم چھ عشروں قبل یہ شعر کہا تھا۔ احساس یہ ہو رہا ہے کہ آج بھی یہ محاوراتی شعر پاکستانی سیاسی اشرافیہ پر پورے طور سے صادق آتا ہے۔ پچھلا ایک ماہ سیاسی اشرافیہ کا رویہ اس حقیقت کا آئینہ دار رہا ہے، ایک جانب حکومت کا اپوزیشن کےخلاف مو¿قف میں یو ٹرن اور متعدد ایشوز پر اپوزیشن کی بلیک میلنگ میں آجانا، بات یکطرفہ ہی نہیں رہی، حزب اختلاف نے بھی کچھ دو، کچھ لو کے فارمولے پر حکومتی اشرافیہ کو مختلف حوالوں سے اپنا تعاون اور رویہ بھی حوالے کر دیا۔ عمران خان اور ان کی حکومت کا بنیادی نعرہ ہی مخالف سیاسی جماعتوں کی ماضی کی لُوٹ مار، لُوٹ کھسوٹ پر ان کا سختی سے محاسبہ کرنا تھا۔ حکومت میں آنے سے قبل اور اقتدار ملنے کے بعد ایک ہی نعرہ تھا، ”کسی کو نہیں چھوڑوں گا، کسی کو این آر او نہیں دوں گا“۔ دوسری جانب شکست خوردہ جماعتوں نے سلیکٹڈ اور سلیکٹر کے نعرے سے موجودہ پارلیمانی منظر نامہ کا آغاز کیا تھا۔ بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں کی گرفتاریوں، احتساب اور میڈیا ٹرائل کا ایک سلسلہ تھا اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ کپتان کی تبدیلی حکومت، بدعنوانوں اور لٹیروں کو منطقی انجام تک پہنچا کر ہی دم لے گی لیکن نجانے پھر کیا ہوا کہ ہواﺅں کا رُخ بدلنے لگا۔ ضمانتیں بھی ہوئیں، بیرون ملک روانگیاں بھی ہوئیں اور سیاسی منظر نامے میں تبدیلیاں ہوتی نظر آنے لگیں۔
پی ٹی آئی اگرچہ 2018ءکے انتخابات میں ایک بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی لیکن اس کا مینڈیٹ ایسا نہیں تھا کہ وہ تنہا وفاق میں یا پنجاب میں حکومت بنا سکتی، لہٰذا اسے دیگر جماعتوں سے اشتراک کا کڑوا گھونٹ پینا پڑا،وفاق پنجاب میں بلکہ کسی حد تک بلوچستان میں بھی اسے ق لیگ، ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور بلوچستان میں قوم پرستوں (اختر مینگل) وغیرہ سے اتحاد کرنا پڑا۔ تفصیل میں جانے کی بجائے ہم گزشتہ چند ماہ کے حالات کا تجزیہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ عمران خان کا انتخابات کے بعد حکومت سازی کیلئے متذکرہ اقدام محض ایک رسک تھا۔ وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت محض چند نشستوں کے بل پر قائم ہوئی جبکہ پنجاب میں ن لیگ کی اکثریتی پوزیشن متاثر کرنے کیلئے انہیں چوہدریوں کا سہارا لینا پڑا اور وہاں بھی حکومت نحیف و نزار صورت میں ہی نظر آئی۔ بات یہیں تک محدود نہیں رہی، خود پی ٹی آئی کی بیشتر نشستوں پر وہ شخصیات منتخب ہوئیں جن کا شمار Electables میں ہی ہوتا ہے اور وہ کسی بھی جماعت میں ہوں کامیاب ہی ہوتے ہیں گویا ان کی وفاداری صحیح معنوں میں پی ٹی آئی کے منشور اور عمران خان کے عزائم اور اہداف کےساتھ نہیں تھی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہر جماعت میں محض اپنے مفاد اور اقتدار کے پاسدار ہیں۔ پی ٹی آئی کے حقیقی اور Die Hard لوگ اس انتخابی معرکہ میں مفاداتی افراد کے مقابلے میں کم ہی منتخب ہوئے۔ عوام الناس کے عمران خان کو ترجیح دینے کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ملک کے چاروں صوبوں میں عوام نے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ووٹ دیئے۔ کراچی جو ایم کیو ایم کا گڑھ کہلاتا تھا وہاں سے بھی پی ٹی آئی نے 14 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جو یقیناً ایم کیو ایم کیلئے بڑا دھچکا تھا۔
اس تمام تر صورتحال میں اگرچہ وفاق، پنجاب، پختونخواہ اور بلوچستان میں حکومت بنا لی لیکن شروع دن سے ہی اسے ایک جانب حلیفوں، مفاداتیوں کو رام رکھنا پڑا تو دوسری جانب گھاگ اور تجربہ کار سیاسی مخالفین سے نبرد آزما ہونا پڑا۔ عام تاثر یہ تھا کہ عمران خان کے انتخاب اور اقتدار میں اصل مقتدرین کی رضا مندی شامل ہے جو دیگر سیاسی قوتوں سے نا امید ہو چکے ہیں اور ملکی حالات کی بہتری کیلئے عمران خان کے بیانیئے کو بہتر سمجھتے ہیں۔ خود پی ٹی آئی کے رہنما اس امر کا اظہار کرتے نہیں تھکتے تھے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ سال میں کپتان کی حکومت کے داخلی، خارجی، معاشی اقدامات اور احتسابی عمل پر ہم اپنے گزشتہ کالموں میں بہت کچھ لکھ چکے ہیں نیز مخالف بڑی سیاسی جماعتوں اور رہنماﺅں کی کوششوں کو بھی بیان کر چکے ہیں۔ یہاں دیکھنا یہ ہے کہ کپتان کا ان حالات میں کیا کردار ہونا چاہیے تھا اور بیک فٹ پر جانے یا حلیفوں کی بلیک میلنگ کی نوبت کیوں آئی۔
میں نے اوپر کی سطور میں مخالف جماعتوں کے رہنماﺅں کیلئے گھاگ اور تجربہ کار کے لفظ استعمال کئے ہیں اس حقیقت میں بھی کوئی شُبہ نہیں کہ پاکستانی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد ایک لازمی عنصر ہے اور سیاسی گھاگ اس کو بخوبی جانتے ہیں کہ مقتدرین کی رضا کے بغیر ان کی سیاست و اقتدار محض خواب ہے یہی وجہ ہے کہ وہ مسلسل اسی تگ و دو میں رہتے ہیں اور حصول قرب میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑتے۔ ن لیگ گُڈ کوپ اور بیڈ کوپ کے کھیل میں ماہر ہے تو ایم کیو ایم اشارے کے منتظر رہتے ہیں۔ پیپلزپارٹی بھی جمہوری پارٹی کے تصور کی آڑ میں اندر خانہ کھیل کھیلتی ہے جبکہ فضل الرحمن جیسے موقع و اقتدار پرست اپنی کارروائیوں سے باز نہیں آتے، اس سچائی کے برعکس کپتان اپنی 22 سالہ جدوجہد کے باوجود سیاسی چمتکاریوں کو سمجھ نہیں پائے ہیں یا اپنے شعوری احتجاجی و منطقی روئیے کے باعث یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا کرپشن فری اور خوشحال پاکستان کا ایجنڈا ان کے ایسے اقدامات سے روبہ عمل ہوگا جو وہ احساس، شیلٹر ہومز، جوان روزگار اور ان کی تند و تیز تقریروں کی صورت میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قلیل اکثریت کی بناءپر وزیراعظم کو اپنے حلیفوں سے اوپن رابطوں کا سلسلہ بذات خود رکھنا چاہیے تھا اور مخالفین کو پارلیمانی امور پر ساتھ ملانے کی پالیسی لے کر قانون سازی اور دیگر قومی و اہم امور پر ساتھ لے کر چلنا چاہیے تھا لیکن شروع دن سے ہی ان کا رویہ مختلف رہا حتیٰ کہ وزیراعظم مخالفین سے ہاتھ ملانے کے بھی روادار نہیں تھے۔ وزیراعظم کے اس طرز عمل کے اتباع میں ان کے و زراءاور پارٹی رہنماﺅں نے بھی اسی ڈگر کو اختیار کیا اور مخالفین پر تنقید، الزام تراشی اور دشنام طرازی میں ہی اپنی توانائیاں صرف کرتے رہے، در جواب آں مخالفین بھی حکومتی حلقوں پر تہمت و تنقید میں مصروف رہے نتیجہ یہ کہ پارلیمان میں قانون سازی اور دیگر اہم امور نہ ہونے کے برابر رہے اور معاملات کو آرڈی نینسز کے سہارے نپٹانے کی کوششیں جاری رہیں۔ پارلیمان میں چونکہ سینیٹ میں پی ٹی آئی کی اکثریت نہیں تھی اس وجہ سے آرڈیننس قوانین کی شکل میں نہ آسکتے تھے۔ اسی دوران آرمی چیف کی مدت ملازمت کا معاملہ سامنے آیا، ناتجربہ کاری یا اس زعم میں کہ وزیراعظم اس معاملے میں مختار ہے، یہ ایشو بوجوہ سپریم کورٹ تک گیا اور نتیجتاً پارلیمان تک جانے کے فیصلے پر منتج ہوا۔ دوسری جانب ن لیگ اور دیگر مخالفین نے اپنے اندر خانہ سلسلوں کو تیز کیا، ذرائع کا یہ کہنا ہے کہ کپتان کی حکومت کی کارکردگی،عام لوگوں کی مہنگائی و دیگر عوامل پر بُری حالت اور کاروباری و دیگر طبقات کے عدم اعتماد و احتجاجوں کےساتھ احتساب کے یکطرفہ سلسلے نے ریاستی اداروں کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا، در پردہ رابطوں کے نتیجہ میں اور قانونی معاملات میں جھول کے باعث ضمانتوں، بیرون ملک علاج کی ضرورت اور دیگر وجوہ کے باعث احتساب کا عمل سوال بن گیا، حتیٰ کہ خود وزیراعظم نے نیب آرڈیننس میں ترامیم کا اعلان کرتے ہوئے نہ صرف اپنے دوستوں کو نجات کی نوید سنائی بلکہ کاروباری طبقہ اور بیورو کریٹس کو بھی احتساب سے ماوراءقرار دیدیا، دوسری جانب سب سے بڑی مخالف جماعت نے بھی بیرون ملک اپنے پر پھیلانے شروع کر دیئے، مقتدرین کو سروسز ایکٹ میں تعاون کر کے اپنی حمایت کا عندیہ دیا اور یہ ظاہر کیا کہ اصل حکمران کپتان سے نا امید ہو رہے ہیں، شہباز شریف کے ریمارکس کہ عمران خان نے آرمی چیف کی توسیع کا معاملہ جان بوجھ کر خراب کیا اور ہمارے تعاون سے یہ ایشو ٹھیک ہوا، انتہائی معنی خیز ہے اور فضل الرحمن کے مارچ اپریل کے دعوے اور چوہدریوں کے راز کی حقیقت کو طشت ازیام کرتا ہے۔ اِن ہاﺅس تبدیلی کا شور بھی سامنے آرہا ہے، خالد مقبول صدیقی کی وزارت سے علیحدگی، GDA کے وزراءمحمد میاں سومرو اور فہمیدہ مرزا کے استعفوں کے علاوہ، اختر مینگل کے اپنی جماعت کے حوالے سے پی ٹی آئی پر تحفظات کےساتھ خود PTI کے عامر لیاقت اور دیگر اراکین اسمبلی کے استعفوں کی بازگشت بے وجہ نہیں ہے۔ شریفوں کی لندن میں لابنگ، کرزئی سے ملاقات اور اہم شخصیات سے رابطے بھی خالی ازعلت نہیں ہیں۔
ہماری اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ خود PTI کے اندر چار شخصیات وزارت عظمیٰ کی امیدواری کیلئے سرگرم ہیں۔ اس تمام تر صورتحال میں کپتان کو مختلف پراجیکٹس کے افتتاح جیسے کاموں سے ہٹ کر اپنے سیاسی کردار کو سمجھداری اور مثبت روئیے سے نہ صرف مخالفین بلکہ اپنی پارٹی کے اندر بھی رابطوں اور بہتر عمل اختیار کرنا ہوگا ورنہ سیاست کی نیرنگی میں کپتان اس شعر کی تصویر بھی بن سکتے ہیں!
دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
٭٭٭