گزشتہ ہفتے خصوصاً جمعہ سے اتوار تک پاکستان میں جو سیاسی صورتحال رہی اس سے ایک حقیقت بالکل واضح ہوئی کہ پاکستانی قوم تمام تر مخالفتوں، اسٹیبلشمنٹ اور لنگڑی بیساکھیوں والی حکومت کے دشمنانہ مظالم، پولیس، رینجرز کی سختیوں، آنسو گیس کی بھرمار کے باوجود عمران خان کے نظرئیے، استدلال اور عزم پر استقامت سے کھڑی ہے۔ عمران خان کی ہدایت پر ملک بھر میں احتجاج و مظاہروں کے سبب عوام نے کراچی سے خنجراب تک عمران سے محبت اور حمایت کا جو ریکارڈ قائم کیا ہے پاکستان کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی اور دنیا بھر نے ان حقائق کو دیکھا۔ چشم فلک نے یہ بھی دیکھا کہ عمران کے لاکھوں پروانوں نے تشدد، گرفتاریوں، کے باوجود اپنے عزم کو برقرار رکھا۔ خیبر پختونخواہ سے اسلام آباد آنے والا قافلہ ہو یا مینار پاکستان پر پہنچنے والے کارکن و قائدین، اسٹیبلشمنٹ و حکومتی انتظامیہ کے دشمنانہ ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرتے ہوئے قائد کی ہدایت پر عمل کر کے سرخرو ہوئے۔ البتہ اس حقیقت سے بھی آنکھ بند نہیں کی جا سکتی کہ کہیں کچھ ایسی صورتحال بھی سامنے آئی جو ”دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف، اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوئی” کے مترادف تھی۔
پی ٹی آئی کا مرکزی احتجاج ڈی چوک پر طے پایا تھا۔ سب سے بڑا قافلہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ علی امین گنڈا پور کی قیادت میں آنا تھا اور راستے بھر رکاوٹوں، خندقوں، کیلوں اور آنسو گیس سے نبرد آزما ہوتے ہوئے کے پی سے یہ قافلہ اسلام آباد بلکہ ڈی چوک بھی پہنچا لیکن کیا ہوا کہ قافلہ سالار ہی قافلے سے غائب ہوگیا۔ کپتان کا وہ معتمد جو وزیراعلیٰ کے پی ہوتے ہوئے بھی حکومت اور مقتدرہ کو اپنے بلند و بانگ دعوئوں، دھمکیوں سے مخاطب کرتا تھا پتہ نہیں چل رہا تھا کہ اسے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ پی ٹی آئی کے اکابرین حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر الزام لگا رہے تھے گنڈا پور کو اغواء کر لیا گیا، گرفتار کرلیا، ملٹری کی تحویل میں ہے۔ عدالت میں پٹیشن دائر کرنے کی تیاری کرنے کا اقدام اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کا الٹی میٹم، غرض ایک شور برپا تھا۔ وزیر داخلہ صحافیوں کے سوال پر ان سے پوچھ رہے تھے کہ گنڈا پور کہاں ہیں۔ چوبیس گھنٹے گزرے تو موصوف کے پی اسمبلی میں نمودار ہوئے اور خطاب فرمایا، اپنی داستان سفر سنائی، آئی جی اسلام آباد پر گرجے، برسے اور کپتان سے ڈی چوک پہنچنے کے وعدے کی تکمیل کا اعلان فرما دیا۔ افسوس کہ ان کی کہانی کا اعتبار نہ پی ٹی آئی کے ورکروں و چاہنے والوں کو آیا، نہ قائدین اس کا جواز ڈھونڈ سکے اور نہ ہی پی ٹی آئی کے طرفدار صحافی و تجزیہ کار ہضم کر سکے۔ ہم خود بھی جو اپنے لڑکپن میں ابن صفی کی کہانیاں بڑے شوق سے پڑھتے تھے گنڈہ پوری کہانی کو ابن صفی کی کہانی سمجھنے پر ہی مجبور ہوئے۔ اس تمام ڈرامے کے ڈراپ سین مختلف خبروں اور سوشل میڈیا کے توسط سے سامنے آرہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ موصوف کی گمشدگی اور برآمدگی کے فوری بعد کپتان کیخلاف نیا مقدمہ بنا دیا گیا ہے۔ 18 اکتوبر تک کپتان سے ملاقاتوں پر پابندی حتیٰ کہ وکلاء سے ملاقاتوں کی اجازت بھی نہیں ہے۔ کپتان کی دونوں بہنیں زیر حراست ہیں۔ دوسری جانب گنڈا پور کی گرفتاری اور کے پی ہائوس کے سیل کئے جانے کی خبروں کیساتھ حکومتی ترجمان اور اسٹیبلشمنٹ کے بھونتو فیصل واوڈا و محسن نقوی کے عمران اور پی ٹی آئی کے خلاف زہریلے بیان اور دعوے اس امر کی نشاندہی ہیں کہ انتقام کا یہ عمل ختم ہونے والا نہیں۔ گنڈا پور کی گمشدگی و برآمدگی کے تناظر میں پھیلائی جانے والی خبریں محض خوش فہمی اور ڈھکوسلہ کے سواء کچھ نہیں کہ مقتدرہ اور عمران کے درمیان کوئی ڈیل طے پائی ہے۔ ہماری نظر میں تو اس قسم کی افواہیں کپتان کے کارکنوں اور عوام کو بھٹکانے کیلئے پھیلائی جا رہی ہیں جو کسی گنڈا پور کے نہیں عمران خان کے نظرئیے اور منشور کیلئے آہنی چٹان بنے ہوئے ہیں اور ہر طرح کی آزمائش کا سامنا کر رہے ہیں۔
وطن عزیز اندرونی و بیرونی کٹھنائیوں اور ابتری کی صورتحال سے دوچار ہے اس کی تازہ ترین مثال کراچی میں ہونے والا خود کش دھماکہ ہے جس میں دو چینی باشندوں، پولیس و رینجرز اہلکاروں سمیت دس سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے یہ دہشتگردی ایسے وقت پر ہوئی ہے جب شنگھائی تعاون کانفرنس منعقد ہونے جا رہی ہے جس میں بارہ ممالک کے حکومتی عہدیداروں کی شرکت متوقع ہے۔ اس دھماکے کی وجہ سے روسی صدر کی شرکت سے معذوری متوقع ہے۔ چینی وزیراعظم کی شرکت پر بھی سوالیہ نشان اُٹھ گیا ہے ۔ پاکستان کی معاشی بہتری کیلئے اس کانفرنس کی جو اہمیت ہے اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ پاکستان اس وقت جس سیاسی آئینی و بحرانی اور منقسم حالت میں ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اندورنی تقسیم کی صورتحال کو باہمی افہام و تفہیم اور یکجہتی میں تبدیل کیا جائے مگر ہمارے ریاستی و حکومتی ارباب حل و عقد جلتی پر تیل سے صرف بغض عمرانیہ میں حالات کومزید خراب کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ انہیں ملک و قوم کی بہتری، سی پیک جیسے اہم منصوبوں، آئینی و جمہوری عملداری اور قانون کی پاسداری کے برعکس کیا اپنا اقتدار اور رٹ ہی مقصود ہے تو یاد رکھیں اس ملک کا خدا ہی حافظ ہے۔ بچہ جمہورا والے کھیل اور پروردہ بتوں کے توسط سے بہتری نہیں آئے گی، مزید ابتری ہی ہوگی۔
٭٭٭٭٭