پیر مکرم الحق
mukarampeer@gmail.com
مودی نے احمد آباد کے سردار پٹیل اسٹیڈیم میں ایک لاکھ سے زیادہ مجموعہ کےساتھ صدر ٹرمپ کا استقبال کیا۔ صدر ٹرمپ نے بھی ایک لمبی تقریر میں مودی کی تعریف کے پُل باندھ دیئے اور مودی کو ایک عظیم رہنما قرار دیا۔ اسلامی انتہاءپسندی کو دونوں ممالک کا ایک بڑا مسئلہ قرار دیا، کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اور پچیس کروڑ مسلمانوں کی شہریت کے قانون کےخلاف پُرزور احتجاج کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ ٹرمپ نے کھلا اعتراف کیا کہ مودی اور میں (ٹرمپ) کی سوچ ملتی جلتی ہے اور اس پابندی کا ذکر بھی کیا جس کے ذریعے نو مسلم اکثریت کے ممالک پر عائد کی ہے اور ہندوستان کےساتھ ایک ممکنہ دفاعی معاہدہ کا اعلان کیا، بھارتی معاہدے کی ابتدائی تیاری کا انکشاف کیا پاکستانیوں کیلئے یہ نہایت افسوسناک واقعہ ہے۔ پاکستان کی حکومت بشمول افواج پاکستان افغانستان میں طالبان کےساتھ جنگ بندی کے سلسلہ میں امریکہ سے مکمل تعاون کرنے کے بعد بھی اگر امریکی صدر ہندوستان کے دفاع کو امریکی دفاع گردانتے ہیں تو پھر پاکستان کی حکومت اور افواج کیلئے شرمندگی کے علاوہ کچھ نہیں رہتا ہے۔
2020ءکی صدارتی انتخابات میں ڈیمو کریٹک پارٹی کی پرائمری انتخابات میں اب تک پانچ فیصد امریکی ڈیمو کریٹک ووٹروں نے اپنی پسند کا اظہار کیا ہے جو تین ریاستوں میں آباد ہیں جس میں آئیوا، نیو ہمپشائر اور نیواڈا شامل ہیں جس کے مطابق ڈیمو کریٹک سوشلسٹ امیدوار برنی سینڈرس سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے باقی صدارتی امیدواروں سے آگے ہیں۔ امریکی سراغ رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق روسی صدر پیوٹن ڈونلڈ ٹرمپ اور برنی سینڈرز کی مدد کی کوشش کر رہے ہیں۔ آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ کوئی بھی شخص دو امیدوار جو ایک دوسرے کےخلاف انتخابی معرکہ لڑ رہے ہوں ان دونوں کی مدد کر رہا ہو۔ تو آخر اس دو طرفہ حمایت کا راز کیاہے؟ عجیب سی بات ہے کیونکہ برنی سینڈرز کا ماضی میں کاسٹرو کے کیوبا کےساتھ قریبی تعلقات رہے ہیں اس طرح برنی سینڈرز نے اپنی شادی کا ہنی مون ماسکو میں گزارا تھا۔ اس کے علاوہ بھی لاطینی امریکہ کی سوشلسٹ اور کمیونسٹ حکومتوں سے گھرے روابط رہے ہیں، اسی طرح برنی سینڈرز کا منشور غریبوں اور مزدوروں کا منشور ہے جس میں کم از کم اُجرت پندرہ ڈالر کے وعدے سمیت ہر امریکی کیلئے مفت میڈی کیئر (ہیلتھ انشورنس) کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم ہر کسی کیلئے ہے بظاہر تو منشور بڑا دلکش ہے لیکن ان تمام سہولیات کیلئے پیسہ کہاں سے آئےگا ، خود ان کو بھی معلوم نہیں پھر صدر پیوٹن برنی سینڈرس کو کیوں سپورٹ کر رہے ہیں۔ کیونکہ صدر ٹرمپ کے خیال میں برنی سینڈرس کو ہرانا ان کے مطابق سب سے آسان ہوگا۔ امریکی عوام سوشلزم کسی کی بھی حمایت نہیں کرے گی کم از کم عوام کی اکثریت اب بھی سرمایہ دارانہ نظام کی حامی ہے 2020ءمیں آزاد ووٹرز سب سے اہم کردار ادا کرینگے جن کی تعداد کل ووٹروں کی 35-40 فیصد ہے۔ وہ کبھی بھی سوشلزم کی حمایت نہیں کرینگے ،برنی سینڈرز پرائیویٹ خلیجی انشورنس کمپنیوں کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن آزاد ووٹرز کی بڑی تعداد ایسے اقدامات کےخلاف ہے، سوال یہ اٹھتا ہے کہ برنی سینڈرز کے ڈیمو کریٹک پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار قرار دیئے جانے کی صورت میں کیا صدر ٹرمپ کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے امکانات بڑھ جائینگے۔
دوسری طرف سابق صدر اوباما کےساتھ آٹھ سال تک نائب صدر رہنے والے جو بائیڈن کے متعلق سے تاثر بڑھتاجا رہا ہے کہ و ہ صدر ٹرمپ کےساتھ ڈیبیٹس مباحثہ میں جیت نہیں سکتے اور صدر ٹرمپ انہیں کمزوری کا طعنہ بھی دیتے ہیں، ایسی صورت میں ڈیمو کریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار بیٹوویج ہیں جو کہ ہم جنس پرست ہیں 38 سالہ پیٹ بیٹو یج آٹھ سال تک امریکی فوج میں افسر رہ چکے ہیں اور بحری فوج میں لیفٹیننٹ رہ چکے ہیں جس کے دوران افغانستان میں ان کی پوسٹنگ رہی ہے۔ ساﺅتھ بینڈ انڈیانا کے میئر بھی رہ چکے ہیں۔ ویسے تو ہم جنس پرستی امریکیوں کیلئے کوئی انوکھی بات نہیں لیکن امریکہ کا قدامت پرست طبقہ اس کیلئے تیار نہیں کہ ان کا صدر ہم جنس پرست ہو جس کا ایک عدد مرد شوہر بھی ہو لیکن ذاتی طور پر وہ نہایت قابل انسان ہیں، ہارورڈ یونیورسٹی کے گریجویٹ بھی ہیں نہایت ہی اچھے مقرر ہیں جن کی باتیں منطقی ہیں سیاست میں میانہ رو خیالات کے حامی ہیں، حکمرانی کے تجربہ میں کمی ہے۔ مجموعی طور پر سابق نائب صدر جوبائیڈن تجربہ، مزاج اور حقیقت پسندی کی وجہ سے اعتدال پسند ڈیمو کریٹک ووٹرز کے پسندیدہ امیدوار ہیں۔ سیاہ فام ووٹرز میں سب سے مقبول امیدوار ہیں جنہیں ٹرمپ بیزار ریپبلکن ووٹرز بھی ووٹ دینے کیلئے تیار ہیں جس کی وجہ سے ان کے منتخب ہونے اور صدر ٹرمپ کو ہرانے کے امکانات زیادہ ہیں۔ باقی بحث و مباحثہ میں ٹرمپ کو ہرانا کسی کے بس میں نہیں ،ان کے جارحانہ انداز کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا۔