عمران خان کا ہیرو سے زیرو تک کا سفر!!!

0
224
پیر مکرم الحق

پیر مکرم الحق
جولائی 2018ءکے انتخابات سے پہلے عمران خان کی زور دار تقاریر کو سننے کے بعد ہر ذی شعور پاکستانی سوچ رہا تھاکہ کرکٹ کی دنیا کا ہیرو اور شوکت خانم کینسر ہسپتال بنانے والا عمران خان بڑی کھری کھری باتیں کرنے والا رہنما ہے ، مالی بے ضابطگیوں سے دور ایماندار عمران خان سابقہ حکومتوں کے مقابلے میں ایک صاف ستھری حکومت لے کر آئے گا اور عوام کی بہبود و فلاح کیلئے کام کرینگے کم از کم بد عنوانوں کو ٹھکانے لگا کر ایک صاف ستھری حکومت کے سربراہ بنیں گے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ سابقہ حکمرانوں کی بد عنوانی اور نا اہلیوں کے باعث عوام ذہنی طور پر مفلوج ہو گئی تھی۔ عوام کو ریلیف دینے میں ناکام سابقہ حکمرانوں سے بد ضن عوام کو عمران خان انہیں ایک مسیحا اور نجات دہندہ نظر آنے لگا تھا۔ عمران خان کے پہلے 100 دن کا منشور بھی شاندار تھا۔ پچاس لاکھ گھر بنوا کر بے گھر غریبوں میں تقسیم کرنے کا ارادہ لوٹا ہوا خزانہ واپس لا کر تمام ملکی اور غیر ملکی قرضوں کی واپسی کروڑوں نوکریوں سے بیروزگار لوگوں کو مفلسی سے نجات غریبوں کی بجلی اور گیس کی سستی فراہمی وغیرہ وغیرہ۔ 100دن تو کے گزر گئے لیکن پھر بھی لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز نہیں ہوا کہ ابھی نئی حکومت آئی ہے بیچارے عمران خان کو حکومتی تجربہ نہیں افسران کی سیاسی ہمدردیاں پچھلی حکومت کےساتھ ہیں وغیرہ وغیرہ۔ غرض کہ اب کچھ اور وقت دینا چاہیے پھر کیا ہوا پچاس لاکھ گھر کیا بنتے غریبوں کی کچی آبادیاں مسمار ہو گئیں کچھ دکانیں اور ٹھیلے ہٹا دیئے گئے ان کی جگہ کوئی مبتادل روزگار نہیں مل سکا۔ غریبوں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے، گھروں سے غریبوں کی مائیں، بہنی، بیٹیاں سڑکوں پر نکل آئیں جھولیاں اٹھا کر بد دعائیں دی گئیں۔ عمران خان کی شخصیت کا سحر ٹوٹ گیا۔ غریبوں کے خواب ٹُوٹ کر بکھر گئے آس فراس ہو گئی۔ ناامیدی اور بیچارگی نے بہتر مستقبل کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ پاکستان کا غریب مزدور اور کسان جھوٹے وعدوں کی دلدل میں پھنس کر رہ گیا۔ آخر یہ کیوں اور کیسے ہوا؟ یہ سوال ہر کسی کے ذہن میں اُٹھتا رہا، پڑھا لکھا سُلجھا ہوا کھلاڑی جو ارادہ اور قول کا پکا تھا ساری زندگی اس نے جس کام میں ہاتھ ڈالا کر دکھایا تو اب کیا ایسی رکاوٹیں تھیں جو اس نے ہتھیار پھینک دیئے۔ 1996ءسے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کرنے والا عمران خان اس سے پہلے سیاست کو گندہ کام سمجھتا رہتا تھا۔ سیاستدانوں کے قول و فعل کے تضاد کو منافقانہ طرز عمل سے تشبیہہ دیتا تھا۔ ایجنسیوں کے سیاسی کردار کو غیر آئینی سمجھتا تھا۔ چور دروازے سے حکومت میں آنے کو نہایت بُرا کہتا تھا اسی لئے جنرل مشرف یا معین قریشی کی کابینہ میں شمولیت کوٹھکرا چُکا تھا۔ لیکن 5 اکتوبر 1952ءمیں پیدا ہونےوالے عمران احمد خان نیازی 25 سالہ سیاسی جدوجہد کی مسلسل ناکامی کے بعد تھک چکا تھا اس وقت اسے کوئی بھی قد آور سیاسی شخصیت ساتھ دینے کی بات کرتا تو وہ بڑھ کر اسے اپنی جماعت میں لے آتا۔ اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ یہ قد آور سیاسی شخصیات دراصل ایجنسیوں کے پالے ہوئے بونے ہیں جنہیں وہ مختلف سیاسی جماعتوں میں بطور نمائندہ داخل کر ادیتی ہیں انہیں سہولیات دیتی ہیں اور پھر آخر میں اپنے کام لیتے ہوئے حکومتوں کو ناکام کرتی ہیں اور حکومتیں گرا بھی دیتی ہیں۔ یہ غلیظ کام ان نام نہاد قد آور (بونے) سیاستدانوں سے لینے کے بدلے انہیں انتخابات میں کامیاب بھی کروا دیتی ہیں اس طرح ان پر نام نہاد (Electables) کی مہر ثبت ہو جاتی ہے کسی بھی جماعت میں جائیں یہ ”فرشتوں“ کے تعاون سے انتخابات میں کامیاب کروا دیئے جاتے ہیں۔ یہی وہ پچاس سو شیاطین ہیں جو حکومتوں کے بننے اور گرانے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ جب ان ایجنسیوں کو محسوس ہوا کہ باقی دو بڑی سیاسی جماعتیں اپنی ساکھ عوام میں کھو چکی ہیں تو انہوں نے تاش کے کچھ پتے جو کہ تحریک انصاف میں بھیجنا شروع کر دیئے جس میں شیخ رشید، ”شیدہ ٹلی“ کو عمران خان اپنا چپڑاسی بھی رکھنے کو تیار نہیں تھا جس کا برملا اظہار انہوں نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں حکومت میں آنے سے پہلے کیا تھا جب وہی لال حویلی والا تحریک انصاف کےساتھ آ ملا تو ہمیں اندازہ ہو گیا کہ جن اداروں پر خان صاحب شدید تنقید کرتے تھے ان کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں انہوں نے پھر فردوس عاشق اعوان اور پھر کئی قد آور بونے آتے رہے اور تحریک انصاف لوٹوں کا جمعہ بازار بن گیا۔
اب نیازی صاحب نام کے وزیراعظم تو ہیں لیکن حکم راولپنڈی والوں کا ہی چلتا ہے اسی لئے وہ بے بس ہیں ان کی حکومت صرف بنی گالہ تک محدود ہو گئی ہے کسی افسر سے ناخوش ہو کر اگر اس افسر کو ہٹانے کا حکم نامہ جاری کیا تو راولپنڈی والوں نے وہ حکم نامہ رکوا دیا۔ آٹے چینی چور مافیا کےخلاف ایف آئی اے نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ تو دےدی لیکن مافیا کے گاڈ فادر نے اپنے بالکے کی وزارت بھی بچا دی اب خسرو بختیار کو فوڈ سیکیورٹی کی وزارت سے ہٹا کر اقتصادی امور کی وزات دلا دی ہے۔ وزیراعظم صاحب آپ کہا کرتے تھے آپ پاکستان کی آخری امید بن کر اُبھرے تھے لیکن آپ استعمال ہو گئے اور ایجنسیوں نے جمہوریت سے عوامی اعتماد کو ہمیشہ کیلئے ختم کرکے کٹھ پتلی حکومتوں کیلئے راہ ہموار کر دی ہے۔ آپ عوام کو دھوکہ دینے کے مجرم ہیں، مدینہ کی ریاست کا خواب دکھا کر آپ نے عوام کو جہنم رسید کر دیا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here