ہسپتال میں گزرے دنوں کی کہانی، کورونا کے شکار ڈاکٹر کی زبانی‘

0
529

ڈاکٹر مشاہد فاروقی

میں پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر اور نیویارک میں مقیم ہوں، آج کل دنیا بھر میں کورونا وائرس تو ہر گفتگو کا موضوع بنا ہوا ہی ہے لیکن اس حوالے سے سب سے مشکل میں نیویارک شہر ہے، جہاں مرنے والوں کی تعداد کسی بھی شہر کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہوچکی ہے۔یہ بات جب کہی جاتی ہے کہ ڈاکٹرز اس مرض کے خلاف سب سے آگے جاکر مقابلہ کررہے ہیں تو یہ بالکل ٹھیک ہے کیونکہ بطور ڈاکٹر مریض کا علاج کرتے ہوئے میں خود بھی اس مرض میں مبتلا ہوا لیکن اب میرا علاج مکمل ہوچکا ہے اور میں مکمل طور پر صحتیاب ہوں۔اس لیے آئیے میں آپ کو بتاتا ہوں کہ صحت بحالی کا کٹھن مرحلہ کیسے گزرا؟ امریکا بالخصوص نیویارک کے حالات کیسے ہیں؟ اور متاثرین کو کس طرح مدد فراہم کی جا رہی ہے؟ہسپتال میں گزرے دن ابتدائی 2 ہفتے بڑے ہی کٹھن گزرے، کھانسی، بخار اور سانس میں تکلیف نے طبیعت کو نڈھال کردیا تھا۔ ایک ہفتہ تو گھر پر ہی گزارا، کوشش تھی کہ معمول کے علاج سے ان مسائل سے نمٹا جائے لہٰذا عام دوائیں کھائیں، بھاپ لی، وٹامن سی لیا۔ ان دنوں میں زیادہ سے زیادہ پانی پیا کیونکہ اس مرض میں جسم کمزور ہوتا جاتا ہے اور بھوک مرتی جاتی ہے۔ اس لیے کوشش کی کہ مناسب مقدار میں غذا جسم میں داخل کی جاتی رہے۔لیکن اگلے ہفتے جب میری طبعیت زیادہ بگڑنے لگی تو ایمبولینس کو بلانے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ بذریعہ ایمبولینس ہسپتال پہنچے جہاں مجھے داخل کردیا گیا۔ ہسپتال میں مریض کی جن چیزوں کا جائزہ لیا جاتا ہے ان میں سے ایک مریض کی Oxygen Saturation کے پوائنٹس ہیں۔ اس کے ذریعے یہ پتا کیا جاتا ہے کہ کہیں مریض کی آکسیجن سیچوریشن کم تو نہیں ہو رہی ہے؟ایک عام شخص کی آکسیجن سیچوریشن 98 یا 99 ہونی چاہیے۔ آکسیجن سیچوریشن کے جائزے کا تعلق اس مرض سے اس لیے بنتا ہے کہ یہ وائرس پھیپھڑوں پر اثر انداز ہوتا ہے اور انہیں نقصان پہنچاتا رہتا ہے، اس وجہ سے چونکہ پھپھڑوں کو آکسیجن کم ملتی ہے اس لیے جسم کو بھی آکسیجن کم ملتی ہے یوں مریض کی حالت تیزی سے بگڑتی جاتی ہے۔میری آکسیجن سیچوریشن چیک کی گئی تو وہ بھی خاصی کم تھی۔ میری طبعیت کی ناسازی کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہسپتال میں میری دیکھ بھال میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ خدا کے فضل سے میری طبعیت سنگینی کی دہلیز تک نہیں پہنچی تھی کیونکہ جس وقت میں ہسپتال کے بستر پر لیٹا ہوا تھا اس وقت ہسپتال میں ایسے بہت سے مریض موجود تھے جنہیں وینٹی لیٹر پر رکھا ہوا تھا۔ہسپتال میں گزرے 8 دن انتہائی کٹھن ثابت ہوئے۔ مجھے وہاں آئیسولیشن روم میں رکھا گیا تھا جہاں کسی ملاقاتی یا دوست احباب کو آنے کی اجازت نہیں تھی۔ یہی نہیں بلکہ ڈاکٹر، نرس و دیگر ہسپتال کا عملہ بھی ان کمروں میں ضرورت پڑنے پر ہی وہاں آتا جس کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ انہیں کمرے میں داخل ہونے سے پہلے تمام احتیاطی تقاضے پورے کرنا پڑتے ہیں، یعنی حفاظتی کِٹ پہننا پڑتی ہے اور ظاہر ہے کہ کوئی بھی آئیسولیشن روم میں غیر ضروری طور پر آکر اپنی صحت و جان کو اس مہلک وائرس کے قریب کیوں لانا چاہے گا؟میرے کمرے کے ساتھ 82 سالہ بوڑھے مریض کا کمرہ تھا۔ اس کی حالت کافی خراب تھی، جہاں مجھے 4 لیٹر بذریعہ نیزل کینولا آکسیجن فراہم کی جارہی تھی وہیں وہ ناتواں عمر رسیدہ مریض 30 لیٹر آکیسجن پر تھا اور اس کی طبعیت دن بدن بگڑتی جا رہی تھی۔
یہاں اہم بات یہ ہے کہ ہسپتال میں کھانے پینے کے حوالے سے کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔ خوش قسمتی سے ان کے پاس حلال کھانا بھی دستیاب تھا اور گھر والے بھی گھر کا کھانا بھیجا کرتے تھے۔ چونکہ انہیں ملاقات کی اجازت نہیں تھی اس لیے وہ کھانا لابی میں ہسپتال والوں کے حوالے کرکے چلے جاتے جہاں سے پھر ہسپتال کا عملہ ہمارے کمروں تک پہنچایا کرتا تھا۔
اگر سیدھی بات کی جائے تو سچ یہی ہے کہ ہسپتال میں بہترین علاج اور میرے اہل وعیال اور عزیز و اقارب کی دعاﺅں کی بدولت میری صحت تیزی سے بحال ہوتی گئی اور 8 روز ہسپتال میں گزارنے کے بعد میں اپنے گھر لوٹ آیا۔ اس وقت میری آکسیجن 95 سے 96 ہے، انشاءاللہ وقت کے ساتھ مزید بہتری کی امید ہے۔
یہاں یہ بھی بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ کورونا وائرس کے خلاف اس جنگ میں ہسپتال جانے سے کچھ دن پہلے تک میں جب گھر میں اس مرض سے لڑتا رہا تو اس دوران کچھ دیسی طریقہ علاج سے بھی مجھے بہت آرام ملا، میں نے روزانہ باقاعدگی سے بھاپ لی، تازہ پھل جن میں وٹامن سی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے ان کا استعمال جاری رکھا، اس کے علاوہ کلونجی اور شہد سے بھی میری قوت مدافعت میں بہتری آئی۔ ان سب چیزوں کو میں نے ہسپتال سے آنے کے بعد بھی استعمال کیا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here