تماشہ….!!!

0
162
ماجد جرال
ماجد جرال

 

ماجد جرال۔

میں یہ نہیں جانتا کہ اس واقعے میں صداقت کتنی ہے مگر سوشل میڈیا پر کئی لوگوں نے اس واقعے کو شیئر کیا۔حضرت لعل شہباز قلندر کے نام سے منسوب اس واقعے کے مطابق آپ کہیں جا رہے تھے تو آپ کا سامنا ریچھ نچانے والے سے ہوگیا، ریچھ نچانے والے نے آپ سے آپ کی بابت پوچھا تو حضرت لعل شہباز قلندر نے بتایا کہ وہ قلندر ہے۔ اس دور میں چونکہ تماشا دکھانے والوں کو بھی قلندر کہا جاتا تھا تو اس آدمی نے حیرت سے کہا کہ آپ کے پاس تو ریچھ ہے نہ ہی ڈگڈگی تو پھر آپ کیسے قلندر ہیں۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟حضرت لعل شہباز قلندر نے ریچھ نچانے والے شخص سے کہا کہ پہلے تم تماشہ دکھاو¿ پھر میں تماشہ دیکھاﺅں گا۔ جب اس آدمی نے اپنا تماشا ختم کیا تو آپ کی طرف دیکھا تو حضرت لعل شہباز قلندر نے دو ٹہنیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے درمیان میں سے گزرو۔۔۔جیسے ہی وہ آدمی دونوں ٹہنیوں کے درمیان میں سے گزرا تو اس کا ماحول ہی بدل گیا۔سخت گرم موسم خوبصورت آب و ہوا میں تبدیل ہوگیا، دور سے آتا ہوا لشکر قریب آ کر بولا بادشاہ سلامت آپ کہاں گئے تھے، سب آپ کی وجہ سے پریشان ہیں، آپ کے نہ ہونے کی وجہ سے نظام حکومت نہیں چل پا رہا وغیرہ وغیر۔۔۔۔۔ پریشانی کے عالم میں وہ شخص ان کے ساتھ چل پڑا جس کو ایک محل میں پہنچایا گیا اور اس کے بعد عیش و عشرت والی زندگی اس کا مقدر بنی۔ وقت گزرتا گیا ایک دن اسے خیال آیا کہ وہ کہاں سے آیا تھا اس کے ساتھ تو ایک ریچھ اور ڈگڈگی بھی تھی۔ انہی چیزوں کی تلاش میں وہ چلتا چلتا دوبارہ ان دو ٹہنیوں کے پاس پہنچ گیا۔ جیسے ہی ٹہنیوں کے درمیان میں سے گزرا تو یکسر وہ اپنے حال میں واپس آگیا۔ سامنے اس کا ریچھ کھڑا اور ڈگڈگی پڑی تھی جبکہ حضرت لعل شہباز قلندر مسکرا رہے تھے، اس آدمی نے پوچھا کہ یہ کیا تھا تو حضرت لعل شہباز قلندر میں جواب دیا یہ میرا تماشہ تھا۔مجھے یہ واقعہ پاکستان یہ طرز حکومت پر بڑا مناسب محسوس ہوتا ہے۔ پاکستان میں قلندر اسٹیبلشمنٹ ہے، یہ جس کو چاہے دو ٹہنیوں میں سے گزار کر تماشہ دکھانا شروع کر دیتے ہیں، دونوں ٹہنیوں(انتخابات) سے گزرنے کے بعد انسان کو دور سے گزرا کی فوج ظفر موج پہنچا دی جاتی ہے، جو سر پر نازل ہوتے ہیں کہتے ہیں وزیراعظم صاحب آپ کہاں گئے تھے، امریکہ چین اور کتنے ہی ممالک آپ کی غیر موجودگی کی وجہ سے پریشان ہیں، آپ کی عدم موجودگی میں عوام کو شدید پریشانی کا سامنا رہا، غرض کے وزراءکی یہ فوج ظفر موج ایسا مکھن لگاتی ہے کہ انسان کو لگنے لگتا ہے وہی وزیراعظم ہے اور وہ بھول گیا ہے مگر یہ تمام وزراءکا تقرر اس نہیں کیا تھا۔ وزیراعظم صاحب کو وزیراعظم ہاو¿س پہنچا کر “سب اچھا ہے” کی پتیاں صبح و شام نچھاور کی جاتیں ہیں۔بڑے سے بڑے المناک حادثے کو بھی ایک معمولی واقعے کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے اور چھوٹی سے چھوٹی کامیابی کو بھی تاریخی اور مثالی بنا کر دکھایا جاتا ہے۔ وزیراعظم سمجھ رہا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ اس کی ذہانت کے بل بوتے پر ہو رہا ہے مگر وہ نہیں جانتا کہ ٹہینوں کے دوسری پار کھڑا قلندر(اسٹیبلشمنٹ) کا تماشہ چل رہا ہے۔ یہ وقت ایک خواب کی مانند گزر جاتا ہے اور پھر ایک دن اچانک وزیراعظم صاحب کو خیال آتا ہے کہ وہ کدھر سے آئے تھے، ان کے ساتھ تو بندہ تھا نہ بندے کی ذات، پھر یہ اتنے لوگ کہاں سے اس کے خیر خواہ بن گئے۔ جیسے ہی وہ اپنی ذاتی سوچ کا استعمال کرنا شروع کرتا ہے تو حالات و واقعات اس کو دوبارہ انہیں دونوں ٹہنیوں کی جانب واپس بھجوا دیتے ہیں، ان دونوں ٹہنیوں سے گزر کر انسان جب باہر آتا ہے تو حیرت سے دیکھتا ہے وزراءکی فوج ظفر موج ہے اور نہ ہی اس کے بلند و بانگ دعوو¿ں میں پیش کیے جانے والے منصوبے کہیں نظر آرہے ہیں مگر نظر اٹھا کر دیکھتا ہے تو سامنے موجود قلندر(اسٹیبلشمنٹ) مسکرا رہا ہوتا ہے اور جب انسان اس سے پوچھتا ہے کہ یہ کیا تھاتو اسٹیبلشمنٹ قلندر کا جواب آتا ہے کہ یہ ہمارا تماشہ تھا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here