سابقہ دہائی کے آخری سالوں میں شروع ہونے والا افغان مفاہمتی عمل ممکنہ طور پر اپنے دوسرے جنم کے لیے تیار ہے۔افغان مفاہمتی عمل میں اس بات پر اتفاق کر لیا گیا کہ کوئی بھی فریق افغانستان میں پرتشدد کاروائیوں کو ترک کرتے ہوئے قیام امن کے لیے اپنی بھرپور کوشش کرے گا۔ اس معاہدے میں براہ راست تو تین اہم فریق ہیں یعنی افغان حکومت، افغان طالبان اور امریکہ مگر افغانستان میں قیام امن میں دیگر کئی ممالک کے مفادات بھی پوشیدہ ہیں جن میں خصوصی پاکستان سرفہرست ممالک میں شامل ہے۔ 2017 سے 2020 تک افغان مفاہمتی عمل پر جس تیزی سے کام ہوا یہ اس بات کی عکاسی کر رہا تھا کہ یقینا تمام ممالک اور فریق افغانستان میں قیام کے لئے واقعی ہی سنجیدہ ہیں۔ قطر میں ہونے والی پروقار تقریب تو سب کو یاد ہوگی جس میں تاریخی امن معاہدہ پر دستخط کئے گئے۔ اس معاملے پر پاکستان حکومت نے جس خوشی کا اظہار کیا وہ در حقیقت پاکستان کا حق بھی تھا کیوں کہ اس معاہدے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں پاکستان نے سب سے مشکل فریق کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان دنوں میں بھی دفتر خارجہ کیا رپورٹنگ کیا کرتا تھا اور انہی دنوں میں ایک مایہ ناز سفارت کار سے بات چیت یہ انکشاف ہوا کہ پاکستان اگر امن مذاکرات میں براہ راست شریک نہیں مگر اس معاہدے میں اگر کسی قسم کی دھوکہ دہی ہوئی تو پاکستان براہ راست متاثر ہونے والا ملک ضرور بن جائے گا۔ میں آسان لفظوں میں بتا دیتا ہوں کہ اس وقت افغان طالبان کی جانب سے پاکستان حکومت کی گارنٹی سے منظور کیا گیا لیکن پاکستانی حکام کو یہ بھی بتایا گیا کہ معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں پاکستان افغان حکومت کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کی طرز پر ہونے والی کارروائیوں کے لیے تیار رہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو یہ پاکستان کے ساتھ افغان طالبان کی جانب سے براہ راست جنگ کی دھمکی تھی۔افغان طالبان کی جانب سے اس پیغام کے بعد اس وقت پاکستان کی حکومت(جو کہ ن لیگ کی تھی) اور دفاعی اداروں میں ایک بار پھر سر جوڑ لئے۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ افغان امن عمل کے لیے واقعی سنجیدہ تھی مگر افغان حکومت کی جانب سے متعدد دشواریاں سامنے آ رہی تھیں۔اس کی بنیادی وجہ افغان حکومت کی جانب سے افغان طالبان کو سیاسی و حکومتی عمل میں شامل ہونے کے لیے غیر مسلح ہونے کی شرط بہت بڑی رکاوٹ بن رہی تھی مگر دوسری جانب افغان طالبان اس شرط پر آمادہ ہونے کو بالکل تیار اس لیے نہیں تھے کہ ان کا یہ موقف سامنے آ رہا تھا کہ وہ افغانستان پر آئینی حکومت کر رہے تھے اور ان سے آئینی حکومت چھینی گئی، ان کے مسلح لوگ دراصل افغان حکومت کی طرح ان کی آرمی ہے۔اور بھی کئی ایسی باتیں ہیں جو یہاں لکھنا مناسب نہیں مگر اس پس منظر کا بتانا اس لئے ضروری سمجھا کے افغان امن عمل جاری رکھنے سے لے کر معاہدہ پر دستخط ہونے تک پاکستان نے بھی اپنی سلامتی کو ایک رسک پر لگائے رکھا۔نو منتخب امریکی صدر جوبائیڈن کی طرف سے اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ افغان مفاہمتی عمل کاا ز سر نو جائزہ لیا جائے گا تو میں سوچ رہا ہوں کہ اس نے سالوں کی محنت کے بعد اس معاہدے میں کیا خامیاں رہ گئی تھی۔ ایک بات البتہ ضرور تھی، افغان طالبان کی سب سے بڑی شرط کے امریکی فوج افغانستان سے انخلا کرے، جس کو معاہدے میں تسلیم بھی کرلیا گیا تھا، اس پر معاہدے میں موجود ہیں چند ممالک کو تحفظات ضرور تھے۔ جائزہ لینے کے بعد میں پائے جانے والے معاہدے میں اگر اس شرط پر کوئی رد و بدل کا تقاضا کیا گیا تو پاکستان حکومت کے دل میں جو خدشات ہیں وہ کہیں حقیقت کا روپ دھار لیں۔
٭٭٭