Ramzan Rana. Legal Analyst. M. A , LLB & LLM (USA
اگرچہہ پنجاب کی سرزمین جنگوں وجدل اور خون وخرابوں سے لت پت رہی ہے ہمیشہ یہ بیرونی حملہ آوروں کی شکار رہی ہے جن کے سامنے مزاحمت کاری کرنے والوں کو بے تحاشہ جانی ومالی نقصان برداشت کرنا پڑے سرزمین پنجاب میں پہلا نام گپتا خاندان کے اشوک اعظم کا آتا ہے جس کی سلطنت ہندوستان کے علاوہ کابل تک پھیلی ہوئی تھی دوسرا نام راجہ بورس کا ہے جنہوں نے حملہ آور سکندر اعظم کامقابلہ کیا تھا مگر جنگی دشمن کے ہتھیاروں کی جدیدیت سے شکست کھا گئے جن کے ہاتھیوںنے اپنے ہی فوجی کچل ڈالی تیسرا نام مہدراجہ رنجیت سنگھ کا ملے جن کی سلطنت دہلی، کشمیر، جلال آباد تک پھیلی ہوئی تھی، افغانستان اور بلوچستان کے بھی علاقے شامل تھے جب راجہ رنجیت سنگھ کی فوج ان کی موت کے بعد بے قابو ہوگئی تو اس فوج کا انگریزوں نے بھرتی کرلیا۔جس نے انگریزوں کی وفاداری اور حکم تعمیلی میں مسلح فوج نے مقامات مقدس مکہ مکرمہ اور بعیت المقدس پر بھی گولیاں برسانے اور معجوزہ علاقوں کو ان سے گریز نہ کیا تھا۔علاوہ ازیں سرزمین پنجاب کے پانی پت کے مقام جنگیں ہوئی جس میں پہلی پانی پت کی جنگ ابراہیم اور دہلی اور بابر کے درمیان ہوئی جس میں ابراہیم اور دہلی شکست کھا گئے دوسری پانی پت کی جنگ جلال الدین ایک اور سوری خاندان کے کمانڈر چندروکرم کے درمیان ہوئی جس میں اکبر کو فتح ملی۔تیسری پانی پت کی جنگ احمد شاہ ابدالی حملہ آور اور مرہٹوں کے درمیان ہوئی جس میں مرہٹوں کی شکست ہوئی تھی۔اب کے چوتھی جنگ پنجاب پانی پت میں ہو رہی ہے کے جس میں اہل پنجاب جو موجودہ حکمرانوں کی وجہ سے انتشار اور خلفشار کا شکار ہوچکے ہیں جن کے وسائل کو لوٹ لیا گیا جن کے ووٹ پر ڈاکہ زنی کی گئی ہے۔جن کو مہنگائی بے روزگاری، بھوک تنگ اور نڈھال کر دیا گیا ہے جن کے ترقیاتی منصوبوں کو قصدر اور الرادتا اور دیا گیا ہے جن کی قیادت کو جیلوں اور عقوبت خانوں میں ٹھونسا جارہا ہے جس کی وجہ سے پنجاب کی قیامت نوازشریف اور موجودہ حکمرانوں اور ان کے اتحادی اور حالی اسٹیبلشمنٹ آمنے سامنے آچکے ہیں جس طرح ماضی میں بنگال میں شیخ مجید الرحمان یا بلوچستان میں اکبر بگٹی غوث بخش بزنجو پختون خواہ میں ولی خان آمنے سامنے آئے تھے جو اپنے صوبوں کے اختیارات کے مطالبے کر رہے تھے مگر ان کے عوام کو حقوق دینے کی بجائے لہولہان کر دیا گیا تھا۔آج وہی حالت پنجاب کی ہے کہ یہاں کے عوام اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں جن کواسٹیبلشمنٹ حقوق سے محروم رکھے ہوئے ہے تاہم پنجاب کی قیادت سابقہ وزیراعظم نوازشریف کو گزشتہ تیس سالوں میں کئی مرتبہ جیل جلاوطنی نصیب میں آئی ہے جو آج بھی موجودہ حکمرانوں کے ظلم وستم جبروتشدد سے تنگ آکر لندن میں مقیم نہیں جن کی چالیں لانے میں حکمرانوں نے بڑی کوشش کی ہے مگر ان کو ناکامی ملی ہے کے جب برطانوی حکومت نے ان کے وارنٹ گرفتاری پر عمل کرنے سے انکار کر دیا ہے جو پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے قبل ازیں ان کے صاحبزادے حسین نواز اور اسحاق ڈار کی گرفتاری سے انکار کردیا تھا۔
جس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ برطانوی حکومت نوازشریف پر سیاسی مقدمات تصور کرتی ہے جس کی وجہ سے مسلسل انکار کر رہی ہے۔بہرکیف پنجاب میں جانبداری کی وجہ سے فوجی حربوں کے خلاف سخت ردعمل پایا جارہا ہے جس میں لاہور اور دوسرے تمام شہروں میں جنرل باجوہ کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں جس سے فوج مکمل طور پر متنازعہ بن چکی ہے حالانکہ ماضی میں جب فوج نے1958سے2008کے پچاس سالوں میں35سال براہ راست لکھوائی گئی تھی۔جن کے ہاتھوں بنگالیوں کا حل عام کیا گیا تھا پھر آج بلوچستان میں عوام کا قتل عام جاری وساری ہے۔جن کے پسندیدہ لیڈر زیڈ اے بھٹو کو پھانسی دے دی گئی تھی جس پر اہل پنجاب خاموش رہے مگر آج جب ان کی اپنی قیادت پر ظلم وستم ہوا تو پنجاب کے عوام سخت ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں جس سے لگتا ہے کہ اب کہ پنجاب بنے گا پانی پت قارئین یاد رکھیں کہ ماضی میں جب بھٹو شہید کی پھانسی کے بعد جب بےنظیر بھٹو کو قتل کیا گیا تو سندھ میں پاکستان نہ کھپے کا ردعمل کیا تھا جس کو سابقہ صدر آصف علی زرداری کے زائیل کیا تھا ورنہ آج پاکستان کا نقشہ کچھ اور ہوتا یا پھر بلوچستان میں اکبر بگٹی کے قتل کے بعد آج تک حالات بے قابو نظر آئے لہٰذا اگر آج نوازشریف یا ان کی صاحبزادی مریم نواز کو کچھ ہوگیا تو پنجاب میں بھی وہی ہوگا جو سندھ اور بلوچستان ہوگا یا پھر فاٹا میں ہورہا ہے۔جس سے ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔شاید یہ ان ہی وقتوں کا انتظار تھا جس کی پیشگوئی ولی خان بزنجو اور جی ایم سید نے کی تھی کہ جب تک پنجاب کی قیادت سامنے نہیں آئے گی پاکستان کے عوام کو آزادی نہیں ملے گی۔لہٰذا پنجاب میں ایک ہر دلعزیز اور ہمدرد قیادت نوازشریف کی شکل میں مل چکی ہے جس نے موجودہ لے پالک ٹولے کو چیلنج کردیا ہے جس پر حکمرانوں کی چیخیں نکل رہی ہیں جو انہیں بھارتی ایجنٹ اور عذار قرار دے رہے ہیں جس طرح ماضی میں لیاقت علی خان نے حسین سروردی، جنرل ایوب نے بانی پاکستان کی ہمشیرہ مادر ملت فاطمہ جناح جنرل یحیٰی خان نے شیخ مجیب یا پھر ولی خان غوث بزنجو اور اکبربگٹی کو غدار قرار دیا گیا جبکہ غدار جنرل ایوب ،جنرل ضیاءاور جنرل مشرف تھے جنہوں نے آئین پاکستان پامال، منسوخ معطل کیا تھا جس پر جنرل مشرف کو سزائے موت ہوچکی ہے جس عملدرآمد کرانے میں موجودہ لے پالک حکومت نے انکار کردیا ہے بہرحال اب وقت آپہنچا ہے جس کا انتظار تھا اگر انہیں جنرلوں نے غیر جانبداری اختیار نہ کی تو پوری فوج کاوہی حشر ہوگا جو وکلاءتحریک کے دوران ہوا تھا جب لاہور کورکمانڈر کو نوٹس جاری کرنا پڑا کہ فوجی اہلکار وردی میں پبلک مقامات ،ٹرینوں، بسوں یا گاڑیوں میں سفر نہ کریںجن سے اہل پنجاب شدید نفرت کر رہے تھے ،اب پھر وہی حالات ہیں کہ جنرل مشرف کی وجہ سے فوج بدنام ہوئی تھی آج وہ عمران خان کی وجہ سے ہو رہی ہے جن کو رات کی تاریکیوں میں ووٹوں کی لوٹ مار سے بنایا گیا ہے جس نے ملک کو سیاسی ،معاشی اور مالی طور پر تباہ وبرباد کر ڈالا ہے جس کا الزام فوج پر ہے لیکن اس میں فوج نہیں چند جنرلوں کی مہم جوئی شامل ہے جو آج پنجاب کو پانی پت کا میدان بنانے جارہے ہیں۔