مجیب ایس لودھی، نیویارک
دور کوئی بھی ہو،پاکستان کے امریکہ سے تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل رہے ہیں ،ٹرمپ کے دور اقتدار میں بھی دونوں ممالک نے باہمی اشتراک سے معاملات کو آگے بڑھانے پر عزم کا اظہار کیا ، وزیراعظم عمران کے دورہ امریکہ میں افغان امن عمل سمیت اہم معاملات زیر بحث آئے لیکن ایک مرتبہ پھر امریکہ میں نئی قیادت نے ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں جس کی وجہ سے حکومت پاکستان ، وزیراعظم عمران خان کو نئے سرے سے بائیڈن انتظامیہ کو اعتماد میں لینا ہوگا ،بائیڈن ٹرمپ کی نسبت زیادہ تحمل مزاج اور مدبر سیاستدان تصور کیے جاتے ہیں ، پاکستان کو بائیڈن کے متعلق ایک مثبت پوائنٹ ضرور حاصل ہے کیونکہ وہ اوباما کے دور حکومت میں نائب صدر کے طور پرپاکستان کا دورہ کر چکے ہیں اور دونوں ممالک کے معاملات پر کافی گہری نظر رکھتے ہیں ۔بائیڈن انتظامیہ میں کشمیریوں اور مسلمانوں کی تعداد بھارتی نژاد باشندوں کے مقابلے میں تھوڑی سہی لیکن ہے ضرور جس کو مثبت تصور کیا جارہا ہے ، پاکستانی حکومت کو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بائیڈن حکومت سے کافی توقعات وابستہ ہیں کہ وہ اس سلسلے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ٹرمپ کے جانے کے بعد پاکستان پر دباﺅ میں ضرور کمی آئے گی اور بائیڈن حکومت اس معاملے کو زیادہ اہمیت دیتی دکھائی نہیں دے رہی ہے کیونکہ اسرائیل کی زیادہ تر ٹرمپ حکومت سے وابستگی رہی ہے ، جو بائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد جو اہم مسائل پاکستان کو درپیش ہیں ان میں امریکی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنا،مسئلہ کشمیر اور اہم معاملات پر پاکستان کے موقف کو عالمی سطح پر اُجاگر کرنا،افغانستان میں امن عمل سمیت پاک امریکہ کے مشترکہ مفادات کو برقرار رکھنا اہمیت کے حامل ہیں ۔افغانستان امن عمل کی بات کریں تو طالبان اور امریکہ انخلا کے معاہدے پر متفق ہو چکے ہیں جس میں افغان حکومت بھی شامل ہے امریکہ اور افغانستان اس مشن میں پاکستان کے کردار کی تعریف بھی کر چکے ہیں۔ٹرمپ مشرق وسطی کی طرح افغانستان سے فوری امریکی فوج کا انخلا چاہتے تھے جو یقینا نہ تو خطے کے مفاد میں تھا اور نہ ہی پاکستان کے مفاد میں اس لئے بائیڈن حکومت کی پالیسی یقینا ٹرمپ سے مختلف ہو گی،اس حوالے سے پاکستان، افغانستان اور امریکہ مل کر ایک بہتر لائحہ عمل تشکیل دے سکیں گے۔
ایف اے ٹی ایف اور طالبان کے حوالے سے بھارتی پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے امریکہ کی نئی حکومت میں پاکستانی انتظامیہ کو متحرک ہونا ہو گا اور اس کے ساتھ پاکستان کی لابی کو بھی متحرک کرنا ہو گا،پاکستان کو چین کی صورت میں اقوام متحدہ میں اہم اتحادی کی حمایت تو حاصل ہے لیکن بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ بھی بہتر تعلقات ہماری ترجیح ہونی چاہئے کیو نکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی چین مخالف پالیسی کی وجہ سے بھارت امریکہ کے قریب ہو رہا تھا اور اسی وجہ سے مودی نے ٹرمپ کو امریکہ میں بھارتی کمیونٹی کے ایک بڑے جلسے سے خطاب بھی کروا دیایقینا جو بائیڈن اور ان کی ٹیم کے علم میں یہ ساری باتیں ہوں گی تو ایسے میں پاکستان کو ٹرمپ کارڈ ضرور استعمال کرنا چاہئے اور جو بائیڈن انتظامیہ کو باور کرانا چاہئے کہ ماضی میں مودی سرکار کس طرح ٹرمپ کو جتوانے کیلئے بھارتی کمیونٹی کا استعمال کر چکی ہے۔نائب صدر کملا ہیرس مودی کی فاشسٹ پالیسیوں کی وجہ سے ان پر کافی تنقید کر چکی ہیں اس کے علاوہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے حوالے سے بھی ان کے بیانات ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ پاکستان کو ان کے اسی موقف کی وجہ سے امریکہ میں اپنی لابی کو متحرک کرنا ہو گا اور کملا ہیرس کے ماضی میں مودی مخالف بیانئے کو لے کر انہیں یہ باور کرانا ہو گا کہ مودی کشمیر میں پچھلے ڈیڑھ سال سے کرفیو نافذ کئے ہوئے ہے اور اس دوران سینکڑوں مسلمان شہید کئے جا چکے ہیں تا کہ نئی امریکہ انتظامیہ کو بتایا جا سکے کہ بھارت خطے میں اقلیتوں کے ساتھ کس طرح ناروا سلوک کر رہا ہے۔اوباما دور میں جب جو بائیڈن نائب صدارت پر فائز تھے تو کیری لوگر کے ساتھ مل کر پاکستان کوکئی ارب بلین ڈالر کی امداد بھی دلوائی تھی جس پر 2009 میںاس وقت کے پاکستان کے صدرآصف علی زرداری نے انہیں ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہری اعزاز ہلال پاکستان سے نوازا تھا۔پاکستان کو ماضی کے تعلقات اور مستقبل کے منظر نامے اور اوپر بیان کردہ عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ روادری پر مبنی تعلقات کیلئے کام کرنا چاہئے اور ٹرمپ کے برعکس جو بائیڈن کی شخصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ کوئی مشکل ٹاسک نہیں ہو گا۔
٭٭٭