پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com
پرانی کہاوت ہے کہ جب تم کسی کی طرف ایک انگلی اٹھا لیتے ہو تو تمہاری تین انگلیوں کی سمت تمہاری طرف ہوتی ہے۔مطلب یہ ہے کہ دوسروں کی خامیوں کی نشاندہی کرنے سے پہلے اپنے اندر جھانکنا ضروری ہے۔آج عمران خان اور اسکی حکومت کے ساتھ جو ہو رہا ہے۔اس راستے میں تمام جماعتیں جنہوں نے اقتدار میں شراکت داری کی ہے وہ جانتے ہیںکہ شکاری پہلے کیسی کیسی باتیں کرکے شیشے میں اتارتے ہیںاور پھر استعمال کرکے ہاتھ چھڑا کر چل پڑتے ہیںپھر وہی لوٹے نئی پارٹی کو دے دیتے ہیں یہی جب سے ایوب خان آیا اور شکاریوں کو شکار کے گوشت کا مزہ چکھایا یہی کچھ ہو رہا ہے۔سچ بات تو یہی ہے کہ ان لوٹوں کو پال پوس کر موٹا تازہ کرنے والے یہی لوگ اور جماعتیں ہیں جنہوں نے عوام کے خون سے ان کی آبپاری کی ہے۔پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن برابر کی ذمہ دار ہے۔نہ ہی ان لوٹوں کو اپنی حکومتوں میں شامل کرنے کیلئے اپنے مخلص کارکنوں کی قربانی دیتے نہ ہی یہ سانڈ طاقتور ہوتے، یہ بھی ایک بہانہ ہے مقصد اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنا ہوتاہے، یہ لوٹے تمام کے تمام اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹ ہیںبلکہSTATUSQNOکے ایجنٹ ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کا ایجنٹ ہے، آج وقت آگیا ہے کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ایک بار پھر میثاق جمہوریت کی تجدید کریں۔بلاول بھٹو اور مریم نواز نوجوان باشعور قیادت میں آج بھی دونوں جماعتوں کو پاکستان کی 60-70فیصد عوام کی حمایت حاصل ہے۔اگر یہ اپنے بزرگوں کو کسی طرح راضی کریں کہ قیادت مکمل طور پر انکے حوالے کرکے سیاست سے الگ ہوجائیں البتہ اسے معاملات میں مشاورت رکھی جائے لیکن فیصلے کرنے کا اختیار نوجوان قیادت کو سونپ دیا جائے۔اس کے بعد چار نکاتی ایجنڈے پر مذاکرات کئے جائیںجن میں فقہ، جمہوریت میںمکمل یقین رکھنے والی چھوٹی جماعتوں کو بھی شامل کیا جائے،اس چارٹر میں مندرجہ ذیل نقاطہ شامل ہوں۔
1۔الیکشن کمیشن کے مقرر کردہ مدت میں ہر سیاسی جماعت پر لازم ہو کر وہ اپنی جماعت میں شفاف انتخابات کرائے۔اس سے پہلے شفاف رکن سازی کروا کر اپنے ممبران کی فہرستیں شائع کرکے اپنے دفاتر کے باہر آویزاں کرے۔جموریت کا مطالبہ کرنے والی ہر جماعت کو اپنی جماعت میں بھی جمہوری طرزعمل کی بنیاد ڈالنا ضروری ہے۔2۔ایک قرار داد کے ذریعے یہ فیصلہ کیا جائے کہ آئندہ ہونے والے انتخابات میں کسی لوٹےTURNCOATکو کوئی جماعت ٹکٹ نہیں دیگی۔بلکہ ایسے لوٹوں کےخلاف مشترکہ طور پر مضبوط امیدوار لاکر اس لوٹے کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کریگی۔
اگر اس قرار داد پر من وعن عمل کیا گیا تو لوٹے ٹوٹنا پھوٹنا شروع کردینگے۔ایک دوسرے کے لوٹے لینا بھی قابل نفرت سمجھا جانا چاہئے۔
3۔اسٹیبلشمنٹ سے انتخابات کے انعقاد اور دوسرے معاملات پر اگر مذاکرات کی ضرورت ہو تو ایک مشترکہ مذاکراتی کمیٹی بنائی جائے جس میں ہر ممبر جماعت کا حصہ ہونا چاہئے۔یعنی جماعت کی عوامی حمایت کے حساب سے اراکین کئے جائیں جن کی تعداد پانچ یا اس کے آس پاس ہو ،کسی رکن کو یہ اجازت نہ ہو کہ وہ انفرادی حیثیت میں اسٹیبلشمنٹ سے بات کرے یا معاملات طے کرے۔
4۔چوتھا اور اہم نکتہ یہ ہے کہ ٹکٹوں کی تقسیم کیلئے جو بھی کمیٹی تشکیل دی جائے۔اس میں غیر متنازعہ اچھی شہرت کے حامل پارٹی ارکان کو شامل کیا جائے جن کی جمہوری جدوجہد میں مستند قربانیاں ہوں اور پیرا شوٹرز کو بالکل ایسی کمیٹیوں میں شامل نہیں ہونا چاہئے۔پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم میرٹ پر مکمل شفافیت سے ہونی چاہئے۔ہر دستخط کرنے والی جماعت کے لئے لازم ہو کہ وہ اپنی ٹکٹوں کا کم ازکم ایک تہائی حصہ اپنے جماعتی کارکنان کیلئے مختص کرے۔اسے کارکنان جو اپنے حلقہ انتخابات میں مقبول بھی ہوں اور جماعتی سطح پر متحرک ہوں۔ان کارکنوں کو جنہوں نے جمہوری جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالا ہو انہیں فوقیت دی جائے۔پارٹی رہنماﺅں کو خوشامدیوں کا ٹولہ پیدا کرکے بجاد مخلص کارکنان پیدا کرنے چاہئے۔جنہیں پارٹی میں اہم مقام دینا لازمی ہے جب تک سیاسی جماعتوں میں سزا اور جزا کا تصور نہیں ہوگا جماعتیں مضبوط نہیں ہونگی۔غریب کارکناں کی انتخابات میں مالی مدد کرکے جتوانا چاہئے انکے انتخابی مہم پارٹی خود چلائے۔جو لوگ بھاری رقوم دیکر ٹکٹیں خریدتے ہیں۔وہ مشکل وقت میں دوسری طرف سے رقوم لیکر وفاداریاں تبدیل کر لیتے بھی ہیں۔انہوں نے تو سیاست کے کاروبار میں رقوم لگائیں ہیں انکی نظریاتی وفاداری کسی جماعت سے نہیں ہوگی۔سیاست کو خدمت خلق بنانے والے ہیں اصل سیاستدان ہیں۔وفاداریاں تبدیل کرنے والے لوگ بنیادی طور پر سیاسی طوائفیں ہیں۔جن کا دین ایمان مالی مفادات ہیں۔
سیاسی جماعتوں کا قیمتیں ترین اثاثہ اس کے نظریاتی کارکن ہیںجن کے لئے انکی سیاسی وابستگی ایسی ہوتی ہے جیسے کہ خاندان کے ساتھ وابستگی اسکے لئے وفاداری تبدیل کرنا ایسے ہی ہے۔جیسے ولدیت تبدیل کرنا ہے۔نظریاتی کارکن یہی سیاسی جماعتوں کی بنیاد اور ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو وقت ضرورت ہر قسم کی سختیاں سہہ کر بھی ثابت قدم رہتے ہیں ان کارکنوں کا جذباتی اور حساس ہونا بھی انکی ثابت قدمی کی دلیل ہے۔
٭٭٭