آئی اے رحمان دھیمے مزاج کے انسان تھے ،فیض احمد فیض کے ساتھی، عاصمہ جہانگیر کے ایک لحاظ سے استاد ،انکا اوڑھنا ،بچھوڑنا حقوق کی جنگ تھی۔بچوں کے حقوق، عورتوں کے حقوق، مزدوروں کے حقوق، اقلیتوں کے حقوق ،قیدیوں کے حقوق اور ضمیر کے قیدیوں کے لئے جدوجہد1930میں ہندوستان کی ریاست ہریانہ میں پیدا ہونے والے ابن عہد رحمان لیکن کہلاتے تھے۔I.Aآئی اے رحمان1989ءمیں پاکستان ٹائمز کے چیف ایڈیٹر اور1990سے انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان کے چیئرمین رہے تاوقت وفات اپریل کے12 2021ءمیں90برس کی بامقصد زندگی گزار کر خالق حقیقی سے جا ملے۔(اناللہ وانا اللہ راجعون)عاصمہ جہانگیر کی شخصیت اور آئی اے رحمان صاحب کی شخصیت میں زمین آسمان کا فرق تھا، عاصمہ شعلہ بیان تھیں تو آئی اے رحمان دریا سندھ کی مانند احمد فیض کی گہری چھاپ تھی۔جس طرح شاعری کی دنیا میں فیض اور فراز کا گہرا رابطہ تھا۔اسی طرح حقوق کی جنگ میں آئی اے رحمان اور عاصمہ جہانگیر ہم رکاب تھے۔انکی جدوجہد نے اور کچھ نہیں تو عوامی شعور کو حقوق کیلئے تیار کیا اور عوام الناس میں حقوق کی آگاہی پیدا کی تھی۔انہوں نے حقوق کی جنگ میں کئی معرکہ اکٹھے لڑے اسٹیبلشمنٹ کو ویسے تو دونوں شخصیات بہت کھڑکتی تھیں لیکن عاصمہ جہانگیر کا جارحانہ انداز جرنیلوں کو نہایت ناپسند رہا اور انکی وفات پر کچھ حلقوں نے انکی موت کو کسی شرارت سے تعبیر کیا۔بہرحال پاکستان کی موجودہ صورتحال میں آئی اے رحمان اور عاصمہ جہانگیر دونوں کا رحلت ہونا حقوق کی جدوجہد کیلئے ایک ضرب کاری سے کم نہیں ہے۔اللہ پاک ان دونوں مجاہدوں کی پرواح کو عزیق رحمت کرے۔دراصل ہے ایک بڑا بلکہ بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا۔آئی اے رحمان کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ خاموشی سے کام کرنے والے تھے۔جن سے انکے اردگرد لوگوں کو سیکھنے کا موقع ملا انکی توجہ ہمیشہ ہرمزاحمت میں نتائج پر مرکوز رہی، دھیمی آواز میں مدلل گفتگو انکا وتیرہ تھا۔مظلوموں کو ریلیف دلوانا انکا مقصد ہوتا تھالیکن پھر بھی انکو عاصمہ جہانگیر جیسے جارح ساتھی کی ضرورت رہتی تھی اور جب کچھ سیدھی انگلی سے نہیں نکلتا تو ٹیڑھی انگلی سے کچھ نکالنے کی ذمہ داری عاصمہ جہانگیر کے حوالے کردی جاتی تھی۔مقصد نتائج کا حصول ہوتا تھا۔دہائی سے آئی اے رحمان کو دیکھتے آئے وہی تسلسل وہی جذبہ سنجیدگی اور ٹھراﺅ ہریانہ کی تاریخ کی طرح قدیم اور مہا بھارت کی داستانوں سے لبریز تھا۔آج بلوچستان کے لوگوں کےخلاف مظالم پر پنجاب میں کوئی آواز اٹھانے والا نہیںلیکن مجھے یقین ہے کہ آئی اے رحمان اور عاصمہ جہانگیر کا کوئی سپاہی حقوق کا علم لے کر نکلے گا، تاریخ نے یہی ثابت کیا ہے کہ جب حق اور سچ کا سورج شہید ہوتا ہے تو آنے والی صبح ایک نئے سورج کو طلوع کرتی ہے۔
حقوق کیلئے جدوجہد جاری رہے گی لیکن جو اس جنگ میں کام آگئے انکو خراج تحسین پہچانا ضروری ہے کیونکہ یہ بے لوث لوگ تھے انہیں کسی چیز کی ضرورت نہیں تھی، انہوں نے مظلوموں کیلئے آواز اٹھائی جسکی وجہ سے انہیں جیلیں، دھونس اور دھمکیاں بھی بھگتنی پڑیں لیکن وہ رکے نہیں، جھکے نہیں ، آخری سانس تک انہوں نے اپنی جدوجہد جاری وساری رکھی۔پاکستان کی عوام اسے سپاہیوں اور جدوجہد کے جرنیلوں کو سونے کے تمغے تو نہیں دے سکتے لیکن انکے ناموں کو زندہ رکھنے کیلئے اپنے بچوں کے نام عاصمہ اور عبدالرحمان رکھ کر انہیں ایک انوکھا خراج تحسین ضرور دے سکتے ہیں۔آئی اے رحمان نے اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والے مزدوروں کیلئے بھی جدوجہد کی، جنکی نسلوں کو خرید کرکے انہیں بدترین غلامی کی زنجیروں میں رات کو جکڑ کر گرمی میں بستے ہوئے گوداموں میں محبوس کیا جاتا تھا۔صبح سویرے انہیں مزدوری پر بھیج دیا جاتا تھا۔آئی اے رحمان کم عمر بچوں سے مشقت اور مزدوری لینے کے کریم عمل کیخلاف آواز اٹھائی حالانکہ سیاسی جماعتوں کو بھی اس جدوجہد کا حصہ بننا چاہئے تھا لیکن محترمہ بےنظیر بھٹو شہید کے دور حکومت میں کچھ کام ہوا لیکن بعد میں آنے والی حکومتوں میں جدوجہد بدعنوان عناءنے پوری توجہ مال بنانے پر مرکوز کی ،عوام کے دکھ درد سے انکا کیا واسطہ؟۔
٭٭٭