کیا جمال خاشقجی کا قتل رائیگاں ہوا؟

0
910
پیر مکرم الحق

پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com

2018ءاکتوبر کے دوسرے دن سعودی عرب کے رہائشی صحافی جوکہ امریکہ میں خودساختہ جلاوطنی میں تھا اور واشنگٹن پوسٹ میں سعودی شہزادے محمد بن سلمان کی طرز حکومت پر تنقیدی کالم بھی لکھتا تھا۔اس نے مروجہ سعودی قانون کے تحت ایک ترک خاتون سے شادی کی اجازت چاہی جس کیلئے سعودی حکومت نے تقاضہ کیا وہ جس ملک کی خاتون کے ساتھ شادی کرنے کے خواہشمند ہیں۔اس ملک کے سعودی سفارتخانے میں انٹرویو کے واسطے تشریف لے آئیں اور اس طرح جمال اور انکی منگیتر اور ہونے والی منکوحہ استنبول میں موجود سعودی سفارتخانے مقرر کردہ وقت پر پہنچ گئے۔یاد رہے کہ یہ اس جوڑے کی پہلی وزٹ نہیں تھی اس سے پہلے بھی وہ یہاںآچکے تھے لیکن انہیں کچھ مزید کاغذات لانے کا کہہ کر اگلی تاریخ یعنی2اکتوبر2018ءکو آنے کا کہہ کر لوٹا دیا گیا تھا۔جمال خشوگجی کا داماد محمد خشوگجی شاہ عبدالعزیز السعود کا ذاتی معالج تھا اور اس حوالے سے انکی رہائش گاہ شاہی محل میں ہی تھی۔خشوگجی خاندان کے مراسم شاہی خاندان سے بہت قریبی اور گھر یلو تھے ایک لحاظ سے جمال کا بچپن بھی محل میں گزرا اور اس حوالے سے جمال کے مراسم شاہی خاندان کے کئی شہزادوں سے نہایت دوستانہ تھے اور وہ انہیںمختلف اوقات میں مشاورت اور خدمات فراہم کرتے تھے۔جب انکو اس بیدردی سے قتل کیا گیا تو سعودی عرب کے اندر اور باہر رہنے والے کئی سعودی لوگوں کو بہت زیادہ حیرت ہوئی کیونکہ وہ سوچ نہیں سکتے تھے کہ جمال خشوگجی جوکہ واشنگٹن پوسٹ کا ایک مستند کالم نگار اور معربی سوچ کو سمجھنے والا ایسا صحافی تھا جوکہ کسی اور سعودی صحافی کے مقابلے میں امریکی صحافتی دنیا سے پوری طرح واقف تھا حد یہ تھی کہ بقول انکی ترک نژاد منگیتر کے خود جمال خشوگجی بھی اسی خوش فہمی میں تھے کہ استنبول کے سعودی سفارتخانہ انکے لئے محفوظ ہے اور انہیں جوکہ ایک امریکی پناہ گزین اور گرین کارڈ ہولڈر تھے۔کوئی بھی نقصان پہنچانے کا سوچ بھی نہیں سکتا لیکن انکی سوچ بلآخر غلط ثابت ہوئی بلکہ جس درندگی اور بیہمانہ طرز پر ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت انہیں قتل کیا گیا۔اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔مزید یہ کہ فقطہ قتل پرہی اکتفا نہیں کی گئی بلکہ انکی لاش کو …..(SAW)کے یعنی ٹکڑے ٹکڑے کرکے یا تو جانوروں کے آگے پھینک دیا گیا یا کسی بھٹی میں جلا دیا گیا ہے اور انکی لاش یا مردہ جسم کا کوئی حصہ بھی آج تک انکے ورثا کو نہیں پہنچایا گیا انکی ترک نژاد منگیتر کو تو اب بھی یہ یقین نہیں آتا کہ جمال خشوگجی کو قتل کردیا گیا وہ آج بھی آس لگائے بیٹھی ہے کہ جمال آج بھی کسی سعودی جیل میں نظر بند ہے۔جمال خشوگجی کا قتل کسی ایک انسان کا قتل نہیں کسی ایک کالم نگار صحافی کا قتل نہیں پوری انسانیت کا قتل ہے پوری عالمی صحافت کا قتل ہے۔صحافت کی دنیا پرامید تھی کہ جوبائیڈن کی حکومت آنے کے بعد جمال خشوگجی کے قتل ناحق کا انصاف کرائیگی۔لیکن جو خبریں واشنگٹن سے باہر آرہی ہیں۔ان سے محسوس یہی ہوتا ہے کہ امریکی اسٹیٹ آفس (وزارت خارجہ) کے افسران اس معاملے پر سعودی امریکی تعلقات کو اس نہج پر نہیں لے جانا چاہتے ہیں کہ جہاں پر سے واپسی ممکن نہ ہوکیونکہ امریکی وزارت خارجہ کو خدشہ ہے کہ اس ساری صورتحال کا فائدہ کہیں کوئی اور ملک (چین یا روس) نہ لے لے۔اس طرح سعودی عرب سے ملنے والے اربوں ڈالر کے آرڈر/معاہدہ منسوخ نہ ہوجائیں۔حالانکہ بائیڈن حکومت نے توCIAکی مکمل رپورٹ جوکہ اس قتل کے متعلق تھی وہ عام کرنی تھی۔لیکن اب کہا جارہا ہے کہ اس رپورٹ سے تین نام جو براہ راست یا بلاواسطہ جمال خشوگجی کے قتل میں شامل تھے۔انہیں ہدف کر دیاگیا ہے اس بات پر مقتول کی ترک نژاد منگیتر نے بھی شدید تنقید کی ہے جس کا کہنا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان انکے منگیتر کے قتل کا ذمہ دار ہے۔انکا نام رپورٹ سے خارج کرنا انصاف اور قانون کی نفی ہے اور اس بے انصافی کے خلاف سراپا احتجاج بن جاﺅنگی۔خاموش نہیں بیٹھونگی۔پوری دنیا کی صحافی برداری کو بھی متحد ہوکر جمال خشوگجی کے بےجا قتل کے خلاف ہر فورم پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرنا چاہئے۔اقوام متحدہ سے مطالبہ کرنا چاہئے کہ قاتل کو سزا ملنا ضرروی ہے اور خاص طرح سے جس نے حکم جاری کیا ہے۔ہر سال2اکتوبر پر جمال خشوگجی کا دن برسی منائی جائے تاکہ یزید وقت کو معلوم ہو کہ اس مظلوم کا خون ناحق رائیگاں نہیں جائیگا۔
”قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے“
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here