سردار محمد نصراللہ
قارئین وطن! لکھنے بیٹھا تو میرے دوست نارتھ کیرولینا سے یہاں بل گیٹ نے ایک کلپ بھیجا جو اس طرح تھا، اس جان لیوا وبا اور اتنی مارا ماری کے بعد بھی اگر 8/10 کرپٹ سیاستدان نا مرے تو میرا تو کرونا پر سے بھی اعتماد اُٹھ جائےگا، یہ سوچ کر ایک شخص کی نہیں بلکہ ہر سوچ و فکر رکھنے والے اشخاص کی ہے، اب آپ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ دنیا کرونا سے لڑر ہی ہے اور بالخصوص پاکستان اس جنگ سے الگ تھلگ نہیں ہے لیکن یہاں جنگ ”چینی پر سبسڈی“ دینے اور لینے پر ہو رہی ہے اور یہ جنگ اس وقت شروع ہوئی جب ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاءنے وزیراعظم عمران خان کے حکم پر رپورٹ جاری کی جس میں وزیراعظم کے قریبی دوست ترین خان، جو عمران خان کی ATM شمار ہوتے تھے اور جنوبی ریجن کے ”خسرو بختیار“ کے نام سرفہرست تھے، سبسڈی حاصل کرنے والوں میں حالانکہ ان دو کے علاوہ سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف اور اس کا بیٹا سلمان شہباز، مونس الٰہی جو ہمارے نواب زادہ میاں ذاکر نسیم کے لیڈر شجاعت الٰہی حسین کا بھتیجا ہے یہ سب کے سب غریب عوام کو لوٹنے والوں میں شمار ہیں اور پاک باز بھی گردانتے جاتے ہیں ان سب میں اہم آدمی ترین خان ہے اور اس کی وجہ کہ وہ وزیراعظم کی اے ٹی ایم سمجھے جاتے ہیں لیکن خان صاحب نے خان صاحب کی پرواہ کئے بغیر واجد ضیاءپر اعتماد کرتے ہوئے ان کو مکمل رپورٹ شائع کرنے کو کہا تو ایک حلقہ سیاست میں ہل چل مچ گئی اور سیاست کاروں سے زیادہ پیشہ ور ٹی وی اینکرز اور شہبازی لفافوں میں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی اور دو سالوں سے عمران کی حکومت کا خاتمہ کرنے والوں نے سمجھ لیا کہ جو کام وہ نہ کر سکے ترین خان کر دے گا لیکن افسوس عمران کے جرا¿ت مندانہ اقدام نے کہ اس نے اپنی حکومت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے رپورٹ شائع کروائی اور اب 25 اپریل کو فرانزک رپورٹ کا انتظار ہے ان اینکر و اور لفافہ شہبازیوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ سبسڈی کے علاوہ حکومتی بنکوں سے اور بیرونی ملکوں کی امداد سے قرضہ جات کی مد میں عوام کے پیسوں پر ڈاکہ ڈالنے والوں کےخلاف بھی ایک اور رپورٹ آنے والی ہے جس نے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھ کر عوام کو لوٹنے والوں کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔
قارئین وطن! آئیے سبسڈی پر تھوڑی سی بات کر لیتے ہیں یہ کھیل بہت پرانا ہے۔ میری ہوش کے تیر جنرل ضیاءالحق کی حکومت پر جا کے لگتے ہیں، جب انہوں نے ایکسپورٹ کرنےوالوں کو سبسڈی کی گرانٹ دینی شروع کی، سبسڈی کیا تھی حکومت کی تجوری کو لوٹنے کا پروگرام تھا۔ میں سیالکوٹ کے ایک ایسے نامور سرمایہ داروں اور کارخانہ داروں کو جانتا ہوں جنہوں نے دن دیہاڑے ہاتھوں پیروں سے ملک کو لوٹا۔ ایکسپورٹ کے نام پر ہمارے ثمر جیلانی کے ایک کاروباری میجر صاحب ہوا کرتے تھے وہ سابقہ فوجی تھے اور بعد میں بزنس مین بن گئے انہوں نے قینچی چپل کا کارخانہ لگایا ہوا تھا اور طریقہ¿ واردات یہ تھا کہ وہ ایک کنٹینر دایاں پیر کا اور ایک کنٹینر بایاں پیر کا ایکسپورٹ کرتے تھے اور اسی طرح انہوں نے اس زمانے میں کروڑوں روپے کمائے اور بعد میں بینظیر سے لاکھوں روپے کے عوض پارٹی ٹکٹ خرید کر سیاستدان بن گئے اور پھر سیاسی وارداتوں میں بھی حصہ دار بن گئے ایک دن میجر صاحب کے صاحبزادے نے ایک مرسڈیز کار کی تصویر دکھائی جب میں نے پوچھا برخوردار یہ کیا ہے وہ بڑے شوخ انداز میں بولا کہ انکل یہ گاڑی ہم نے محمد خان جونیجو سے 30 لاکھ روپے میں خریدی ہے اور اسی طرح کی سبسڈی کی واردات سے لکھ پتی کروڑ پتی پاکستان کی گلیوں میں جا بجا پھر رہے ہیںاور آج تک ضیاءالحق سے شروع ہونے والا سلسلہ جاری تھا کبھی چینی کے نام پر کبھی سپورٹ گڈز کے نام پر تو کبھی جوتوں کے نام پر لیکن 72 سالوں میں پہلی دفعہ عمران خان وزیراعظم نے اس سبسڈی چوروں پر ہاتھ ڈالا ہے اور اسی عزم کا اظہار کیا ہے کہ ان کو حکومت کے جانے کی پرواہ نہیں ہے وہ ان لٹیروں کو نہیں چھوڑیں گے خواہ اس میں ترین کا نام آئے، خسرو بختیار کے بھائی کا یا مونس الٰہی کا کوئی بھی نہیں حکومت کے عذاب سے نہیں بچ پائے گا، عمران خان گُڈ لک ٹو یو۔
قارئین وطن! ایک رپورٹ بینکوں کو لوٹنے والوں کےخلاف آنے والی ہے جس نے شریفوں، زرداروں، چوہدریوں اور ان جیسے بڑے بڑے باگڑ بلوں کے نام آنے والے ہیں اگر یہ رپورٹ شائع ہو جائے تو یقین جانئے بڑے بڑے امیر زادے اور سفید پوش گند سے لدے ہوئے ملیں گے،یہ مملکت خداداد پاکستان کا کمال ہے کہ ایوب خان سے لے کر یحییٰ خان، ضیاءالحق اور مشرف جیسے حکمرانوں نے اس کلاس کو پیدا کیا ہے ،صرف اور صرف اپنے اقتدار کو طُول دینے کیلئے ان فوجیوں کو تو چھوڑیں، اس وزیراعظم کی بات کرتے ہیں کہ جس کو میں نے کبھی بھی فون کیا تو ملازم یہی بتاتا تھا کہ سائیں قرآن شریف کی تلاوت فرما رہے ہیں آپ کو بعد میں فون کرتے ہیں جونیجو صاحب کی مہربانی تھی کہ وہ واپس فون کرتے تھے ان کی اسی ادا نے اس وقت تک میرے دل میں اپنے لیے ایک اعلیٰ مقام بنائے رکھا جب تک مجھے ان کے اس جرم کی خبر نہیں تھی کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کو حکومتی بنکوں سے دو فیصد پر کروڑوں کے قرضہ دیئے جس کو ان ممبران نے واپس ان بنکوں کو دس فیصد پر قرضہ دیا اور مال مفت دل بے رحم شیر مادر سمجھ کر 8 فیصد سے اپنے اور اپنے بچوں کے پیٹوں میں ڈالتے رہے۔ جب میرے گناہ گار کانوں کو یہ خبر پہنچی تو یقین جانئے میرے دل سے وہ شخصیت مٹی ہو گئی۔ احترام کا بھرم چُور چُور ہو گیا، جونیجو کے اس اقدام نے پاکستان کی سیاست کا پیراڈائم بدل دیا اور اس کی وجہ سے ہماری اسمبلیوں میں چور اچکے بیٹھے ہیں اور ہمارے مقدر کے بادشاہ بنے بیٹھے ہوئے ہیں۔
قارئین وطن! اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان قوم کی ا میدوں پر پورا اُترتے ہیں یا چور اور ڈاکو حکمرانوں کی فہرست میں اپنا نام بھی درج کرواتے ہیں لیکن سچی بات ہے کہ میرا دل اسی بات کی گواہی دے رہا ہے کہ خان صاحبا ن سب سے مختلف ہیں اور وہ ماضی کی غلطیوں کا حساب چکانے کیلئے چینی اور قرضوں کی رپورٹ پر عمل درآمد کرینگے اور کیفر کردار تک ترین ہو یا مونس الٰہی ہو یا شہباز جو بھی ہوگا پہنچے گا ایک طرف کرونا ہمارے سروں پر موت کی تلوار تھامے کھڑا ہے تو دوسری جانب واجد ضیاءکی فرانزک رپورٹ کا انتظار ہے۔ اللہ کرے کرونا ہی ان لٹیروں کو ختم کر دے تاکہ واجد ضیاءکی رپورٹ کا بھرم رہ جائے ورنہ پانامہ جیسا حشر نہ ہو۔ دعا کریں۔
٭٭٭